سینیٹ میں سندھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کون ہونگے؟ طریق کار طے کر لیا گیا

کراچی (آئی این پی ) پی ٹی آئی سندھ میں سینیٹ کے خواہشمند ارکان میں مقابلے کا منصوبہ مکمل، سندھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کون ہونگے ؟ فیصلہ ایم پی ایز ووٹنگ سے ہوگا۔ امیدواروں کے نام کیلئے پی ٹی آئی سندھ نے پروسس آف الیمینیشن متعارف کرا دیا۔ ٹیکنو کریٹ، جنرل نشستوں پر خواہشمند امیدواروں کیلئے

طریقہ کار پر عملدرآمد ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ارکان تمام امیدواروں کیلئے ووٹنگ کریں گے، ہر کٹیگری پر کم ووٹ حاصل کرنے والا مرحلہ وار الیمینیٹ کر دیا جائے گا، بچ جانے والے 3 نام پی ٹی آئی پارلیمانی بورڈ کو بھیجے جائیں گے، امیدواروں کے نام کا حتمی فیصلہ پارلیمانی بورڈ ہی کرے گا۔۔۔۔۔ریلوے کے حکام نے ادارے کا خسارہ بڑھنے کا اعتراف کر لیا، ملبہ پنشنروں پر ڈال دیا، تفصیل جانیئےاسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ریلویز کے حکام نے ریلوئے خسارہ بڑھنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلوے کا خسارہ کوشش کے باوجود ختم نہیں کر پا رہے 1لاکھ 23ہزار ریلوے پنشنر ، ملازمین 67ہزار ہیں پنشن کے باعث سالانہ 39ارب کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہکمیٹی ریلویز کا اجلاس چیئرمین کمیٹی معین ووٹو کی صدارت میں کیرج فیکٹری میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ریلوے کی کارکردگی کا جائزہ کا جائزہ لیا گیا چیئرمین قائمہ کمیٹی معین وٹو نے کہا کہ ٹرینوں کے حالات بہت برے ہیںاڑھائی سال کے دوران ریلوے کے حالات بہتر نہ ہو سکے ریلوے کی کسی ایک چیز کو تو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ٹرینیں بند کرنے سے بچت نہیں ہوگی انہوں نے کہاکہ ہمیں مسائل کا حل نکالنا ہوگا ایم ایل ون منصوبے کی بہت باتیں سنی ایم ایل ون منصوبہ اب تک کاغذوں اور باتوں تک محدود

ہے۔کمیٹی اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے ریلوئے حکام نے کہاکہ ریلوے کا خسارہ کوشش کے باوجود ختم نہیں کر پا رہے اس کی بڑی وجہ1لاکھ 23ہزار ریلوے پنشنر ، ملازمین 67ہزار ہیں پنشن کے باعث سالانہ 39ارب کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے رکن کمیٹی امجد خان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریلوے کو بہت مشکل میں ڈالا پنشن کی مد میں 12ارب کا بوجھ بڑھ گیا ہے دوسری جانب پاکستان ریلوے کی سال 2015 سے 2020 تک کی سالانہ رپورٹس میں بعض اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے اثاثوں میں اضافے کے بجائے ہر سال بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ 5 برس قبل ریلوے کے پاس 484 انجن تھے جو اب کم ہو کر 472 رہ گئے جب کہ مسافر کوچز کی تعداد 2015 میں ایک ہزار 511 تھی جو اس وقت کم ہو کر ایک ہزار 378 رہگئی ہے۔اسی طرح گڈز ویگن 5 برس قبل 16 ہزار 843 تھیں جو کم ہو کر 14 ہزار 327 رہ گئی ہیں جب کہ 5 برس قبل 80 ہزار 804 ریلوے ملازمین تھے جن کی تعداد کم ہو کر 67 ہزار 627 رہ گئی ہے۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں