ٹرمپ نے امریکی روایات کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ عمران خان نے پاکستان کی مشرقی روایات کو، سلیم صافی نے وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لے لیا

اسلام آباد(پی این آئی)سینئر صحافی ، اینکرپرسن اور کالم نگار سلیم صافی روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ بعض حوالوں سے ٹرمپ اور عمران بالکل متضاد شخصیت کے حامل ہیں، سب سے بڑا اور بنیادی فرق تو یہ ہے کہ ٹرمپ غیرمسلم جبکہ عمران خان مسلمان ہیں، وہ امریکی نیشنلسٹ بننے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ عمران خان ریاست مدینہ کا نام لے کر

عالم اسلام اور مسلمانوں کا ہیرو بننے کی ۔ٹرمپ اپنی دولت کے سہارے سیاست میں وارد ہوئے اور اپنی دولت کے زور پر اقتدار تک پہنچے، عمران خان کرکٹ کی بنیاد پر سیاست میں داخل ہوئے اور اپنا پیسہ جمع کرنے یا خرچ کرنے کی بجائے جہانگیر ترین وغیرہ کے پیسے سے سیاست میں آگے بڑھتے رہے۔اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ ا سٹیٹس کوکی طاقتوں کو چیلنج کرکے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں کے بغیر(ہاں البتہ یہودی لابی ان کے ساتھ تھی) اقتدار میں آئے جبکہ عمران خان کی سیاست اور اقتدار دونوں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے مرہون منت ہیں، یوں ان اور ان جیسے کئی حوالوں سے دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں، لیکن شخصی اور سیاسی حوالوں سے دونوں میں بعض عجیب مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ذاتی مشترکات تو بہت ہیں لیکن ذاتی معاملات پر بات کرنا میرا شیوہ رہا ہے اور نہ آج اس کا ذکر کروں گا البتہ سیاسی مماثلتوں کا تذکرہ ضروری ہے، مثلا ٹرمپ بھی اسٹیٹس کو توڑ کرنیا امریکا بنانا چاہ رہے تھے اور عمران خان کا نعرہ بھی نیا پاکستان ہے، ٹرمپ بھی یوٹرن لینے کے ماہر ہیں اور عمران خان بھی۔ٹرمپ بھی اپنی خوبیوں کے بجائے مخالفین کی خامیوں کے تذکرے کی بنیاد پر حکومت کررہے تھے اور عمران خان بھی ایسا کررہے ہیں، ٹرمپ نے بھی ماضی کے امریکی صدور کی روایات توڑ یں اور عمران خان نے بھی۔مثلا ماضی کے صدور خود موبائل فون استعمال نہیں کرتے تھے لیکن ٹرمپ نے استعمال کرنا شروع کیا یہی کام عمران خان بھی کر رہے ہیں بلکہ عمران خان تو غیرملکی سربراہان سے بات کرتے ہوئے بھی ریسیور کان سے لگاتے ہیں اور اسٹاف کی نوٹ ٹیکنگ کیلئے سپیکر آن نہیں رکھتے۔ ٹرمپ بھی ٹویٹر بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں اور عمران خان بھی اسی کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ٹرمپ بھی اپنی غلطی ماننے کی بجائے آئے روز وزیر مشیر تبدیل کرتے رہے اور عمران خان بھی وزیروں اور مشیروں کو بار بار تبدیل کرنے کو تبدیلی سمجھتے ہیں۔لیکن دو بنیادی تباہ کن مشترکات یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکی روایات کو ہلا کے رکھ دیا جبکہ عمران خان نے پاکستان کی مشرقی روایات کو ۔ ٹرمپ کی شخصیت کے ان پہلوئوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کا واحد سپر پاور یا پھر لبرٹی اور جمہوریت کی علامت امریکہ آج دنیامیں تماشہ بن گیا ہے۔ اگلے روز ٹرمپ کے حامیوں نے پارلیمنٹ پر جس طرح حملہ کیا ، اس نے امریکی جمہوریت کے چہرے پر کالک مل دی ۔تاہم امریکہ میں چونکہ ادارے مضبوط ہیں اسلئے معاملہ کنٹرول ہوا۔خود ٹرمپ کی جماعت کے سابق صدر بش اور سینیٹ اور کانگریس کے ارکان ٹرمپ کے خلاف کھڑ ے ہوگئے کیونکہ وہاں خوشامد کا وہ کلچر نہیں جو ہمارے ہاںپایا جاتا ہے ۔چنانچہ امریکہ میں معاملہ آگے بڑھنے سے رک گیا لیکن نیا امریکہ بنانے کی مشق میں ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران امریکی سوسائٹی میں جو زہر بھر دیا ہے، اب اس کو ختم کرنے میں جوبائیڈن جیسے پرانے امریکا کے پرانے سیاستدانوں کو بڑے جتن کرنا ہوں گے۔ لیکن پاکستان میں تو نہ جمہوری ادارے مضبوط ہیں، نہ ان کی پارٹی کے اندر کوئی ان کے سامنے زبان کھول سکتا ہے۔ہماری فالٹ لائنز پہلے سے بھی گہری ہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ عمران خان کے بعد پاکستان میں کوئی جوبائیڈن جیسا سمجھدار سیاستدان حکمران بنے۔ اس لئے میں حیران ہوں کہ یہاں سوسائٹی میں پھیلائی جانے والی نفرتوں اور پولرائزیشن کا کیا انجام ہوگا؟

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں