اسلام آباد (این این آئی)مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہاہے کہ مریم نواز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ایون فیلڈ کی منی ٹریل قوم کو دے دیں۔پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ جھوٹ نہ بولیں،
براڈ شیٹ لندن کورٹ گیا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں لہذا ان کے حق میں قرقی کے آڈر کر دیں۔انہوں نے لکھا کہ لندن کورٹ نے کہا کہ آج بھی آپ کی ملکیت ہے۔ اب آپ منی ٹریل تو قوم کو دے دیں یا یہ ہی بتا دیں خاندان میں کس کی ملکیت ہے۔مشیر داخلہ نے لکھا کہ یہاں یہ بھی دہرانا ضروری ہے کہ براڈ شیٹ کی مصالحتی عدالت کی کارروائی آپ ہی کے دور میں ہوئی، اس بات کی بھی تحقیق ہو رہی ہے کہ حکومتی وکلا نے مقدمہ کیسے لڑا ہمیں تو ورثے میں آپکا گند ہی ملا ہے۔۔۔۔
سلیم مانڈوی والا سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، اگر آپ پر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو آپ مقدس گائے نہیں ہیں، شہزاد اکبر کا سخت جواب
اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو اداروں کو بدنام کرنے نہیں دینگے، اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کی لوٹ مار کی معافی مل جائے،سلیم مانڈوی والا سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، اگر آپ پر کوئی مقدمہ بنتا ہے تو آپ مقدس گائے نہیں ہیں،آپ اداروں کو دھمکا اور بدنام کر رہے ہیں جو یہ ایک رکن پارلیمنٹ کے شایان شان نہیں ہے،ہم سمجھتے
ہیں کہ تمام اداروں آزادانہ طریقے سے کام کرنا چاہیے اور ان کو قانون میں جو تحفظ حاصل ہے وہ ملنا چاہیے،برطانیہ نوازشریف کے کیس کا جائزہ لے رہا ہے، نوازشریف کے کیس میں ملزمان کے تبادلے کا معاملہ یا انہیں برطانیہ سے بے دخل بھی کیا جا سکتا ہے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ نہیں ہے کہ نیب سارے کام ٹھیک کرتا ہے، نیب کا کوئی حکم غلط ہوتا ہے تو اسے عدالت میں چیلنج کیا جاتا ہے لیکن آپ سینیٹ کو اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، آپ اداروں کو دھمکا اور بدنام کر رہے ہیں ، یہ ایک پارلیمان کے رکن کے شایان شان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو اداروں کو بدنام کرنے نہیں دیں گے، نواز شریف کو برطانیہ سے لانے کا معاملہ دوسرے قیدیوں سے مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانیہ نوازشریف کے کیس کا جائزہ لے رہا ہے، نوازشریف کے کیس میں ملزمان کے تبادلے کا معاملہ یا انہیں برطانیہ سے بے دخل بھی کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قیام سے تین چار ماہ پہلے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بچنے اور دوبارہ وائٹ لسٹ میں آنے کے لیے کچھ قانونتھی اور ہم نے کہا کہ آپ نیب کے ان قوانین میں بھی ترمیم کر سکتے ہیں جو ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈ
سے نہ ٹکرا رہے ہوں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات گھڑی جاتی ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم ہونی چاہیے، قانون میں کوئی بھی ترامیم کی جا سکتی ہے لیکن ترامیم وہ کی جائیں جس کا فائدہ اصولی بنیادوں پر سب کو ہو لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور ہے، جن لوگوں نے یہ ڈرافٹ کیں وہ تمام نیب کے ملزمان ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان 34 ترامیم میں کہا گیا کہ نیب کے قوانین پر عملدرآمد 1985 سے نہیں بلکہ 1999 سے کیا جائے، میرا دعویٰ ہے کہ 1985 کے بعد یہ سب لوگ جو سیاست میں آئے، ان کے اثاثے دیکھ لیں اور 1999 میں دیکھ لیں، یہ چاہتے ہیں کہ 85 سے 99 تک جو کمایا ہے اسے حلال کردیں اور ان پر غیرقانونی اثاثہ جات بنانے کے جتنے بھی کیسز ہیں اس پر انہیں معافی دے دی ہے، تو بھائی یہ این آر او نہیں تو کیا ہے۔انہوں نے کہا کہدوسری شق یہ ہے کہ نیب میں ایک ارب سے نیچے کے کرپشن کو جرم تصور نہ کیا جائے، اس سے نیچے کام ایف بی آر یا کسی چھوٹے محکمے کو بھیج دیں تو رمضان شوگر ملز، رانا ثنااللہ کے اثاثے، جاوید لطیف، خواجہ آصف سمیت وہ تمام لوگ ہیں جو اس شق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑی ڈیمانڈ ناصرف اس میں کی گئی بلکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ میں کی گئی اور وہ یہ تھی کہ منی لانڈرنگ نیب کےجرم کے طور پر ختم کردیا جائے، سرکاری عہدے کے حامل فرد کے لیے منی لانڈرنگ کو دیکھنے والا
واحد ادارہ نیب ہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس مسودے پر دستخط کر دیتے تو یہ فوری این آر او تھا، شہباز شریف کا ٹی ٹی کیس ختم، آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کے تمام کیسز ختم، چوہدری شوگر ملز کا کیس ختم، خواجہ آصف کا اثاثوں کا کیس ختم، فریال تالپور کے کیسز ختم ہو جاتے اور یہ تمام لوگ اس مسودے سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے کہا کہ بے نامی کی بھی تعریف کی جائے اور آپ کے 18سال سے بڑے بچے اور اگر بیوی آزادانہ ٹیکس ادا کرتی ہے تو انہیں بے نامی میں شامل نہ کیا جائے، یہ ایک عجیب و غریب ڈیمانڈ ہے کیونکہ اگر ایک ٹیکس ادا کرنے والے کے نام میں اپنی رشوت کی چیزیں کراتا جاؤں تو کیا وہ بے نامی تصور نہیں ہو گا۔وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ پاکستان کے کسی فوجداری قانون میں وقت کی حد نہیں ہے، آپ پانچ سال پہلے کی بھی چیز تفتیش کر سکتے ہیں اور جب آپ کے علم میں آئے تو 10 سال سے 50سال تک کی چیز بھی تفتیش کر سکتے ہیں، ان کی تجویز یہ تھی آپ اس کو پانچ سال تک محدود کر دیں کہ آپ پانچ سال سے پیچھے نہیں جا سکتے تو آصف علی زرداری اور گیلانی صاحب کے پانچ سالہ دور کو یہ پکا این آر او تھا اور نواز شریف کے بھی دو ڈھائی سال کو کلین چٹمل جاتی۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ نیب کے 12 جرائم میں سے 5 جرائم کو نیب کے جرائم کی
فہرست سے ہٹا دیں، اس سے براہ راست فائدہ اٹھانے والوں میں شہباز شریف، نواز شریف، مریم نواز، احسن اقبال، خواجہ آصف، شاہد خاقان، خورشید شاہ، جاوید لطیف شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک شق یہ تھی کہ نااہلی کی مدت بھی 5سال کردی جائے اور نیب سے بین الاقوامی قانونی معاونت ختم کردی جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نیب کے جرائم میں باہر سے کوئی ثبوت نہ منگوا سکیں، یعنی لندن کے ثبوت منگا کر آپ عدالت میں پیش نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی شق پاکستان تحریک انصاف، وزیر اعظم عمران خان یا ان کی ٹیم کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں تھی، انہوں نے بارگین کرنے کی بڑی کوشش کی جو نہیں ہو سکی، ان کو صاف انکار کردیا گیا جس کے بعد اپنی خفت چھپانے کے لیے پی ڈی ایم کا دھرا بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا سینیٹ میں ریکوزیشن کے لیے قرارداد پیش کر چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب کو طلب کریں گے اور کمیٹی کے سامنے لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اصول کی بات یہ ہے کہ میں اپنا دفتر اپنے ذاتی فوائد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیب کو بین الاقوامی سطح پر بلیک لسٹ کرائیں گے تو میں ان کو یاددہانی کرا دینا چاہتا ہوں
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں