ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے رکن قومی اسمبلی کیخلاف نیب نے شکنجہ تیار کر لیا، تحقیقات شروع ہو گئیں

ملتان(پی این آئی)قومی احتساب بیورو(نیب)نےتحریک انصاف کےرکن قومی اسمبلی عامرطلال گوپانگ اور اُن کےوالدسمیت خاندان کے14 افراد کے کیخلاف تحقیقات شروع کرتے ہوئےاثاثوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔نجی ٹی وی کےمطابق نیب ملتان کی جانب سے ڈپٹی کمشنر مظفرگڑھ امجد شعیب ترین کو لکھے گئے نوٹس

میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر طلال گوپانگ کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں، عامر طلال گوپانگ کے علاوہ اُنکے والد سابق رکن قومی اسمبلی عاشق خان گوپانگ سمیت خاندان کے14افراد کے اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں، ضلع مظفرگڑھ کےمتعلقہ پٹواریوں اوراراضی ریکارڈسینٹرکےاہلکاروں کوبھی ریکارڈکےساتھ چار جنوری کو نیب ملتان پہنچنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ نیب کے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ نوٹس کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں کارروائی ہو سکتی ہےواضح رہے کہ 2018کے انتخابات سے قبل عامر طلال گوپانگ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل تھے۔ تحریک انصاف میں کس کس نے خود کو وزیراعظم نے منصب کیلئے پیش کر دیا؟ اپوزیشن رہنما کا تہلکہ خیز دعویٰ پی پی رہنما کے مطابق تحریک انصاف میں نصف درجن لوگوں نے خود کو وزیراعظم کے عہدے کیلئے پیش کر دیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکمراں جماعت تحریک انصاف میں آدھے درجن لوگ خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے پیش کر رہے ہیں۔نفیسہ شاہ کے مطابق ان رہنماوں میں سب سے زیادہ بے چین اور بے قرار شاہ محمود قریشی ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور دیگر وزراء کو پی ڈی ایم کے استعفوں سے زیادہ عمران خان کے جانے کا انتظار ہے۔ پی پی رہنما کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا فیصلہ ہو چکا ہے، مقام کا فیصلہ بھی مشاورت سے ہوگا۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں موثر اور واضح بیانیہ رکھا۔چور حکومت کے لئے انتخابی میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے۔ قوم چاہتی ہے کہ عمران خان عزت سے چلے جائیں مگر باعزت طریقے سے جانا عمران خان کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ پی ڈی ایم مضبوط اور مستحکم ہے اور پی ڈی ایم کی ساری قیادت ایک صفحہ پر ہے۔ پی ڈی ایم کی طرف سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے اب اس بات پر غور ہورہا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت کے خلاف احتجاج کس مقام پر کیا جائے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں