اسلام آباد (پی این آئی) سینئیر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں موجودہ سیاسی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نظام کچھ ایسا بنا ہوا ہے کہ حکومت کو کچھ ہوگا تو لازماً تیسرے فریق کو بھی زک پہنچے گی، اِسی لیے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی حمایت کے ساتھ ساتھ دو باتیں واضح طور پر
بتا دی گئیں، وزیراعظم کے استعفیٰ کے لیے دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی الیکشن وقت سے پہلے ہوں گے، تیسرے فریق کی طرف سے اِن دو واضح شرائط کے ساتھ ڈائیلاگ کی بات کی گئی، ظاہر ہے کہ اپوزیشن اِن شرائط کے ساتھ ڈائیلاگ کے لئے کہاں تیار ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن تجربہ کار ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کئی تحریکوں اور کئی حکومتوں کا تجربہ کر چکے ہیں، اِس لیے اُن سے توقع یہی کرنی چاہیے کہ وہ کسی نادانی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور اپنی سیاسی چالوں کی منصوبہ بندی ایسے طریقے سے کریں گے جس سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ اور حکومت کو سیاسی نقصان ہو۔اپوزیشن کے لانگ مارچ اور احتجاج کے حوالے سے حکومت کی ممکنہ جوابی حکمت عملی یہ ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح مارچ کو گزارا جائے، لانگ مارچ سے پہلے سینیٹ کا انتخاب ہو جائے، ہو سکتا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لیے بھی کوئی سنجیدہ کارروائی کرے۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ بزدار کا سکہ چل رہا ہے، چوہدری پرویز الٰہی بدستور اُن سے ناراض ہیں۔انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ اور استعفوں سے پہلے مذاکرات کا امکان بڑھ رہا ہے، تیسرا فریق چاہے گا کہ ملک میں گڑ بڑ نہ ہو، لانگ مارچ ہوا تو نہ سیاسی استحکام رہے گا اور نہ معاشی استحکام، اجتماعی استعفے ہوئے تو نظام ہی معطل ہو کر رہ جائے گا، ضمنی انتخابات کروانا ناممکن ہوں گے۔ مذاکرات کی پہلی جھلک سینیٹر محمد علی درانی کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقات میں نظر آئی۔انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات شہباز شریف سے ہوں گے اور ظاہر ہے مذاکرات کرنے کے لیے اُنہیں رہا کرنا ہوگا، گویا آنے والے دو مہینوں میں تبدیلی ضرور آئے گی، یہ تبدیلی اگر حکومت کی نہ ہوئی تو پالیسی کی ہوگی۔ حزبِ مخالف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی پہلی اینٹ رکھی جا چکی ہے لیکن اِس کی بنیاد بھی لازماً لانگ مارچ سے فوراً پہلے یا اُس کے ساتھ ہی رکھی جائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں