کراچی (این این آئی) سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کی میزبانی میں پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 پر یہاں منعقدہ یہ ایک روزہ کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں نے پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ آردیننس2020کے ذریعے وفاقی حکومت کی سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضے کی متفقہ طور پر مخالفت کرتے ہوئے
مسترد کردیا ۔ سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے قومی یکجہتی کو زک پہنچے۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سندھ اور ہمارے وسائل ایک جیسے ہیں۔انہوں نے یاد دلایا کہ سینیٹ میں جس دن جزائر سے متعلق قرار داد پیش کی تو اس کو فوری منظور کیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے بھی ریکوزیشن جمع کرائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پونم زندہ ہے لیکن سویا ہوا ہے۔18ویں ترمیم پونم کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔انہوں نے کہا کہ سیاست کو مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔ہمارے مسائل اسی طرح ہیں جیسے پہلے تھے مگر اب فرق یہ آیا ہے کہ پہلے جو بات سندھی اور بلوچ کہتے تھے۔آج پنجابی سرمایہ داروں کا سب سے بڑا سرمایہ دار کررہا ہے۔یہ ہماری کامیابی ہے۔ہمیں نواز شریف اور مریم کی سپورٹ کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نے اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ہم ان کے مشکور ہیں۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سندھ کے مسائل بلوچستان کے مسائل سے الگ نہیں ہیں۔جب یہ آرڈیننس آیا اسی دن ہم نے اس کو سینٹ میں مسترد کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے واقعی عوامی انقلاب کی بات کرنی ہے تو ہم نے داخلی بدمعاش کا ہاتھ توڑنا ہو گا۔آج بھی سندھی اپنے وڈیرے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا۔سابق وزیر اعلی
بلوچستان عبد المالک بلوچ نے کہا کہ یہ ذہنی کیفیت ہے کہ جزائر کو کسی نہ کسی طرح ہم صوبوں سے کاٹ دیں،مشرف نے واضح کیا تھا کہ میں گوراد کو وفاق حیثیت دوں گا۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں 12 ناٹیکل میل تک صوبے کا حصہ ہیں۔جو جزائر سندھ کے ہیں وہ سندھ کے ہی رہیں گے ۔ اس ضمن میں ہم کوئی بھی پیمانہ نہیں مانیں گے۔انہوں نے سوال کیا کہ کون سے قانون کے تحت کوسٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہمیں سنجیدگیاختیار کرنے کی ضرورت ہے۔عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ کچھ لوگ سونمیانی کے علاقے میں جزائر پر آئل ریفائنری لگانا چاہتے ہیں۔اس کے لگانے سے قریبی آبادیاں تباہ ہو جائیں گی۔ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ پیڈا کا جزائر پر قبضہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے آئین کی روشنی چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جزائر پر قبضہ قوموں کا قتل عام ہے۔ ڈنگی اور بھنڈار سندھ کے عوام کے آباو اجداد کی سرزمین ہے نیازی کے آباو اجداد کی نہیں ہے۔انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے کہا کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے فیصلے نہ کریں جس سے قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجائے۔پاکستان میں سیاسی دھوکہ بازی بہت ہوچکی ہے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب ہمیشہ خاموش رہا ہے۔اب تو پنجاب نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہم جابروں کے ساتھ نہیں ہیں۔جارحیت اور جبر سے
ملک نہیں چلے گا۔ہم سندھی اس ڈیولپمنٹ کے خلاف ہیں۔سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید جلال محمود شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت آئین کو پامال کرتے ہوئے سندھ و بلوچستان کے جزائر اور ساحلی پٹی پر قبضہ کر چکی ہے۔ یہ سب 2 ستمبر کو ایک خفیہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا۔ پیڈا آرڈیننس کے سلسلے میں سندھ حکومت نے دوغلی پالیسی اختیار کی اور خانہ پ ری کیلئے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ سندھ کے جزائر پر ترقیاتی کاموں کے نام پر قبضہ وفاق کو کمزور کرے گا۔ وفاقی حکومت ہمارے قومی اور ثقافتی تشخص کو مسخ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ مخصوص مفادات رکھنے والے گروہ اور ادارے نہیں چاہتے کہ پاکستان مضبوط وفاقی فلاحی ریاست بنے۔پوریت مزاحمتی تحریک کے مسرور شاہ نے کہا کہ پاکستان کے حکمران 70 سالوں سے اقتدار پر بیٹھے ہیں اور عالمی مارکیٹ پر اس کا رینٹ حاصل کر رہے ہیں۔اسی سوچ کی بنیاد پر سندھ اور بلوچستان کے جزائر کو عالمی قوتوں کے مفادات پر زیرِاستعمال لانا چاہتے ہیں۔ممتاز قانون داںشہاب اوستو نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیاکی تاریخ میں کبھی بھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔جزائر آرڈیننس آئین کی پامالی کرتے ہوئے ہمارے وسائل پر قبضہ کے مترادف ہے۔اس آرڈیننس سے نہ صرف ہمارے سمندر بلکہ ہمارے
دریا پر بھی قبضہ ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔پروفیسر مشتاق میرانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ وفاق لوگوں کو بے دخل کر رہا ہے، اس اقدام سے لوگوں میں غلامی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سندھ ایکشن کمیٹی کو بھی پی ڈی ایم میں شامل کرنے کی دعوت دی جائے ۔سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صلاح الدین نے اپنے خطاب میں کہا کہ آرٹیکل 172 کہتا ہے کہ کسی پراپرٹی ہے تو وہ صوبے کی ہوگی۔ان جزائر کا اگر کوئی نجی مالک نہیں ہے تو یہ صوبے کی ملکیت ہیں۔انہوں نے کہا کہ 12 ناٹیکل میل سے آگے جو زمین ہوگی وہ وفاق کی ہوگی۔12 میل تک زمین سندھ اور بلوچستان کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرنہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ سندھ یونائیٹیڈ پارٹی نے یہاں سب کو جمع کر کے پاکستان یونائیٹیڈ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر عمران خان قبضہ نہیں کر سکا سندھ کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے۔جزل سیکریٹری عوامی نیشنل پارٹییونس بونیری اورجے یو آئی کے تاج محمد نایوں نے کہا کہ ہم اپنے حقوق لڑ کر بھی حاصل کریں گے۔شرعی حوالے سے سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنا ناجائر ہے۔عوامی جمہوری پارٹی کے نور نبی راہوجو نے کہا کہ ڈیولپمنٹ کے نام پر سندھی اوربلوچ قوموں کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔پاکستان سرائیکی پارٹی صوبائی صدرشفقت بخاری نے کہا کہ پیڈا کا قانون ظلم کا
تسلسل ہے۔ہم اس پیڈا ظلم کو داستاں بنا دیں گے۔جماعت اسلامی کے اسداللہ بھٹو نے کہا کہ سندھ یونائیٹیڈ پارٹی نے بغیر کسی تفریق کے سب کو یہاں جمع کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو شائد سندھ کی تاریخ کا علم نہیں۔ہم سندھ کے جزائر کے انچ انچ کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں کسی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا گنا ہ ہے تو کیا جزائر پر ڈاکہ ڈالنا گناہ نہیں ہے۔سندھ اور بلوچستان کی حکومت اس مسلئے کو سنجیدہ طریقے سے اٹھائیں۔ عوامی ورکرز پارٹی کییوسف مستی خان نے کہا کہ ہمیں اس ملک میں بسنے والی قوموں کے درمیان نیا معاہدہ کرنا پڑے گا۔ہمارے بڑوں کو غدار کہ کر باہر سے لوگ اس ملک میں مسلط کئے گئے ہیں۔عوامی تحریک کے سجاد چانڈیو (عوامی تحریک نے کہا کہ ملکی سطح پر پونم کی طرح اتحاد بنناچائیے۔یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سائیں جی ایم سید، فاطمہ جناح، باشا خان کو غدار قرار دیا۔ہمیں ان لوگوں کو پہچانا پڑے گا جنہوں نے ایوب خان کے ساتھ فاطمہ جناح کو غدار کہلانے کے لئے مہم چلائی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر جہانزیب بلوچ نے کہا کہ پیڈا سندھ اور بلوچستان کے قومی تشخص پر حملہ ہے۔ہماری پرامن جدوجہد کے جواب میں لاشوں کے تحفے دئیے جاتے ہیں۔عام لوگ اتحاد کے چیئرمین رحمت اللہ خان وزیر نے صدارتی آرڈیننس (پیڈا)کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کے جزائر حاصل کرنے کے حکومتی اقدام کو بدترین
قانون سازی قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وفاق کے پاس اختیار ہے، لیکن اتنے اہم ایشو پر اٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیئے تھا۔ حکومت نے زمین کے حصول کی وجوہات ہاو سنگ اور انڈسڈٹریز بتائی ہیں، جو خالصتا صوبائی سبجیکٹ ہے۔سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کی میزبانی میں پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 پر آج کی یہ ایک روزہ کانفرنس میں شریک تمام جماعتیں پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ آردیننس2020کے ذریعے وفاقی حکومت کی سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضے کی متفقہ طور پر مخالفت کرتے ہیں۔کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں کے رہنماوں نے متفقہ طور پر پر یہ کہا ہے کہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں آئین کے آرٹیکل 1 کے کلاز 2 کے تحت سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خواہ، پنجاب آئینی معائدے کے تحت تاریخی قومی اکائیوں کے طور پر اس ملک میں شامل ہیں۔ جبکہ آ ئین کے آرٹیکل 172(2) اور میری ٹائیم ایکٹ 1976ع صاف طریقے سے واضع کرتا ہے کہ 12 ناٹیکل مائیل کی حدود کے اندر سرزمین، سمندر اور اس کے اندر موجود معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کیا ہوا پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 نہ صرف آئین کے نکات کی نفی کر رہا ہے بلکہ مکمل طور پر آئین کے آرٹیکل 239 کے کلاز 4 کی پامالی کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان
کی سرحدوں میں ردوبدل کرنے کا بھی مرتکب رہا ہے اس لئیے یہ ایوان مشترکہ طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ۔ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 آئینِ پاکستا ن کی نفی کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا سبب بنا ہے اس لئیے اس کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں مشترکہ طور پر صدارتی آرڈیننس کو مسترد کرتی ہیں اور یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 فوری طور پر واپس لیے کر پاکستان کے آئین میں کئیے ہوئے معائدے کے تحت قومی اکائیوں سندھ اور بلوچستان کے جغرافیائی حدودد کو محفوظ بنایا جائے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی موجودہ حکومتیں پیڈا آرڈیننس 2020 کو واپس کروانے کے لئیے کاو نسل آف کامن انٹرسٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر وفاق پر یہ غیر آئینی آرڈیننس واپس لینے کے لئیے اپنا دباو ڈالے ورنہ ان کی خاموشی کو اس میں شریک عمل سمجھا جائے گا۔ یہ ایوان متفقہ طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ نیشنل کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو فوری طور پر ختم کر کے سندھ و بلوچستان کے آئینی و قانونی حق کو تسلیم کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری قومی وحدتوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بند کیا جائے۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے شہر میں امن و امان اور سیکورٹی کے نام پر گوادر شہر کو باڑ لگا کر بند
کرنے کے وفاقی حکومت کے اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر باڑ لگانے کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ ترقی کے نام پر سندھوں کواقلیت میں تبدیل کرنے اور مقامی لوگوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش بند کی جائے۔ ۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں