کراچی (این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے تمام ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے میرے پاس جمع کرادیئے ہیں، میرے ہر رکن پر کافی قوتیں دبائو ڈال رہی ہیں، ان قوتوں سے کہتا ہوں میرے لوگوں سے یہ سلوک بند کرو، مجھے مجبور نہ کریں کہ سب کو ایک ایک
کرکے قوم کے سامنے بے نقاب کروں، وزیراعظم صاحب کے پاس مسائل کا حل نہیں تو استعفے دیں اور گھر چلے جائیں،وزیر اعظم پاکستان ڈھائی سال سے زیادہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ابھی بھی ‘زیر تربیت’ ہیں اس کے نتیجے میں ملک کے لوگ انکی نا اہلی ، قیمتوں میں اضافے اور ناقص پالیسی کے سونامی سے بری طرح سے متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومتی امور کو سنبھالنے اور پاکستان کے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں جیسا کہ آصف زرداری کی پی پی پی کی حکومت نے عوام کو دی تھیں، ہم کیا چاہتے ہیں عمران خان کے سلیکٹرزکو لازما سمجھنا ہے کہ انھوں نے کیا کردیا ہے۔یہ بات انہوں نے کورنگی روڈ پر ملیر ایکسپریس وے کی سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ تقریب میں وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزرا، مشیران اور سینئرز افسران شریک ہوئے۔ چیئرمین نے کہا کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ وہ زیر تربیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ 22 سال سے کیا کررہا تھے جس کا وہ دعوی کرتے ہیں ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے تربیتی پروگرام کی وجہ سے پاکستان کے لوگوں کی صورتحال پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے ابتر ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب آصف زرداری پاکستان کے صدر تھے تو
ملک کی مالی حیثیت اتنی اچھی نہیں تھی مگر انھوں نے اس حقیقت کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 150 فیصد اور پنشن میں 100 فیصد اضافہ کیا اور بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے ذریعے ملک کی غریب خواتین کو مالی تحفظ فراہم کیا۔ انہوں نے مزید کہا ہم نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی اور(دہشت گردی کے خلاف)جنگ میں ہمارے فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا ہم نے انکی قربانیوں کو بھلایا نہیں اور انکے خاندان کی دیکھ بھال کی اور انکی تنخواہوں اور معاوضوں میں اضافہ کیا۔ وزیر اعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیئرمین نے کہا کہ وہ نااہل ہیں اور ان میں عوام کو ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہمیں انکو پاکستان کی عوام کی حمایت سے ہٹانا ہے اور ساتھ ہی ہم نے انکے (وزیر اعظم) سلیکٹرز کو یہ بھی محسوس کرانا چاہتے ہیں کہ انکا انتخاب ڈیلیور کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے۔ بلاول بھٹو نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 90 دن میں عوام کی مشکلات ختم کرنا تھی لیکن یہ تو پاکستان کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔افسوس کی بات ہے پاکستان افغانستان اور بنگلادیش کے جی ڈی پی سے بھی پیچھے اور مہنگائی میں آگے ہے۔اس کا سبب وزیر اعظم کی بے صلاحیتی اور نالائقی ہے۔وزیر اعظم انٹرویو میں معاشی انڈیکیٹرز بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں مگر لوگ خودکشی
کررہے ہیں۔وزیر اعظم ہر مشکل میں کہتے ہیں میں کیا کروں۔کشمیر پر حملہ ہوا تو وزیر اعظم کہتے رہے میں کیا کروں۔وزیر اعظم نے مہنگائی پر بھی یہی جواب دیا کہ میں کیا کروں۔وزیر اعظم صاحب کے پاس جب کوئی حل ہی نہیں ہے توا نہیں چاہیے کہ استعفے دیں اور گھر جائیں۔ہماریپاس مسائل کے حل موجود ہیں، سیلاب اور معاشی بحران میں ہم نے عوام کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں ٹیکس کم مگر وسائل میں ہم ان سے آگے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ وفاق صوبوں کے وسائل چھیننے کی کوشش کررہا ہے ۔آپ کا یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام کے جوش کو آپ نہیں روک سکوگے اور اگر وہ دن آگیا جب صوبوں نے اپنے وسائل ہاتھ میں لیلئے تو آپ کیا کرو گے۔آج جس صوبے میں گیس پیدا ہورہی ہے وہ گیس کے لیے پریشان ہے۔عوام کو تحفظ اور ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔بزنس سیکٹر اور تاجروں سے ملکر ہم ایسے کام کرسکتے ہیں۔ہمیں اس نالائق اور سلیکٹڈ کو گھر بھیجنا ہے۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) یونٹ کا دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا سندھ پی پی پی یونٹ کو چھٹے نمبر پر جبکہ پاکستان کو بارہواں نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ
یہ انکی حکومتی پالیسیوں کی کامیابی ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے سندھ حکومت کو (جب وہ وزیر خزانہ تھے) کو پی پی پی موڈ پر میگا پروجیکٹس شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ محدود مالی وسائل کے ساتھ حکومت میگا پروجیکٹس کا آغاز نہیں کرسکتی ہے ، لہذا پی پی پی موڈ میں صوبے کی ترقی شروع کرنے کے لئے آسان راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے حیدرآباد – میرپورخاص روڈ کو پی پی پی موڈ پر تعمیر کیا ہے اور ان کی حکومت نے اس منصوبے پر شاید ہی چند ملین خرچ کیے ہوں۔ انہوں نے کہا اب ، پورے قرضے کی ادائیگی ہوچکی ہے اور اب اس منصوبے سے پیسہ کما رہے ہیں ۔ اسی طرح حکومت نے دریائے سندھ پر جھرک – ملکاتیار ، پی پی پی موڈ پر ایک طویل ترین پل تعمیر کیا اور یہ منصوبہ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ پی پی پی موڈ میں تعمیر کیا جانے والا ٹھٹہ ڈبل کیریج وے بھی ایک کامیاب منصوبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ پر زیر تعمیر کنڈھ کوٹ گھوٹکی پل سات ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ پہلے پانچ ماہ کے دوران سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی) نے اپنی آمدنی میں 15 فیصد اضافہ ظاہر کیا ہے جبکہ ایف بی آر نے صرف چار فیصد وصولی میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے ادارے
بنائے ہیں اور آپ نے (فیڈرل گورنمنٹ) کی ٹاکنگ مشینیں بنائیں ہیں جو میڈیا پر دن رات طویل دعوے کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس مقف کا اعادہ کیا کہ سامان پر سیلز ٹیکس جمع کرنے کا کام صوبوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ صارفین سے نزدیک ہیں اور ایف بی آر سے بہتر جمع کرسکتے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اگر یہ سندھ حکومت کے حوالے کردی گئی تو حکومت ایس آر بی ، سندھ سیلز ٹیکس میں غیر معمولی اضافہ ظاہر کرے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے ان کی حکومت نے پی پی پی کے تحت 28 ارب روپے کی لاگت سے شروع کیاہے۔ کورنگی روڈ سے قائد آباد تک کا پہلا حصہ ایک سال کے اندر مکمل کیا جائے گا اور یہ سارا منصوبہ ڈھائی سال میں شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ انکی حکومت نے اس منصوبے کیلئے 4 ارب روپے رکھے ہیں اور بقیہ رقم بینک قرض کے طور پر دے گی۔ منصوبے کی تفصیلات دیتے ہوئے مراد علی شاہ نے بتایا کہ یہ موٹروے کے ساتھ 38.50 کلومیٹر لمبائی اور اسکی چوڑائی 30.90 میٹر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایکسپریس وے میں چھ انٹرچینج ہوں گے اور چھ لین ، پانچ پل اور پانچ ویٹ والے پل اور 63 کلورٹس اور ایک انڈر پاس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک شاندار ایکسپریس وے ہوگا اور اس سے نہ صرف ٹریفک کے مسائل حل ہونگے بلکہ اس سے شہر میں خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔
وزیراعلی سندھ نے متعدد منصوبوں کا بھی انکشاف کیا جن کی حکومت پی پی پی کے موڈ پر اور اپنے وسائل سے شہر میں شروع کرنے جارہی ہے۔ اس موقع پر وزیر بلدیات ناصرشاہ نے بھی خطاب کیا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں