لاہور (پی این آئی) پنجاب کی حکومت نے صوبے کی جیلوں میں 125 سال سے رائج قواعد کو تبدیل کرنے کے لیےمسودہ قانون تیار کر لیا ہے ۔ قانون کے اس نئے مسودے کو محکمہ جیل خانہ جات، وزارت داخلہ، محکمہ قانون اور جسٹس پیس پراجیکٹ نامی تنظیم نے تیار کیا ہے۔ دو سال کی محنت سے تیار کیے گئےنئے
رولز کا نام پنجاب پریزن رولز 2002 رکھا گیا ہے۔ نئے رولز کے تحت اب جیلوں میں قیدیوں کو بیڑیاں نہیں لگائی جا سکیں گی۔ جیل رولز سے قیدیوں کو سزا کے طور پر لگائے جانے والے کوڑوں کی سزا بھی ختم کر دی گئی ہے۔ کوڑوں کی سزا 1978 میں حدود آرڈیننس کی سزاؤں کے تناظر میں جیل رولز میں شامل کی گئی تھی۔ چونکہ اب یہ سزائیں متروک ہو چکی ہیں لہذا کوڑوں سے متعلق رولز کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے لیے لفظ پاگل مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح رولز میں سے مینٹل ہسپتال کی اصطلاح بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اس کی جگہ نفسیاتی علاجگاہ رکھ دیا گیا ہے۔ مختلف جرائم میں ملوث سرکاری افسران کو بیرکوں کے اندر دیگر قیدیوں کے اوپر گارڈ تعینات کر دیا جاتا تھا جو کہ باقاعدہ رولز کے مطابق تھا اب اس شق کو بھی مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ نئے رولز کے تحت جیل میں قید ماں ملاقات کے لیے آنے والے بچے کو چھو بھی سکے گی۔ اس سے پہلے کسی بھی قیدی ماں سے جب اس کے بچوں کو ملایا جاتا تھا توان کے درمیان ایک جالی کا فاصلہ ہوتا تھا جو کسی بھی لحاظ غیر انسانی تھا۔ اب جیل حکام کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ماں کو اپنے بچوں سے جسمانی طور پر ملنے دے تاکہ وہ ایک دوسرے کا لمس محسوس کر سکیں۔اسی طرح کم عمر قیدیوں کی تعلیم مکمل پروفیشنل اساتذہ کے ذریعے ہوگی اور کوشش
کی جائے گی کہ ان کو جیل سے الگ ماحول فراہم کیا جائے۔ حکومت کے ووکیشنل تعلیمی اداروں کو جیلوں میں مکمل رسائی ہو گی تاکہ وہ بچوں کو ایسی تعلیم دے سکیں جو جیل کے باہر ان کے لیے روزگار کے حصول کا باعث بنے۔ ایک سو بیس سالہ پرانا وہ رول بھی بدل دیا گیا ہے جس میں آزاد ہونے والے قیدی کو آزادی کے وقت کچھ رقم دی جاتی تھی۔ پرانے رولز کے مطابق اگر قیدی کا گھر جیل کی آٹھ کلو میٹرز کی حدود میں تو اس کو کچھ نہیں دیا جاتا تھا آٹھ کلو میٹرز کے بعد ہر کلومیٹر کا ایک روپیہ دیا جاتا تھا۔ اب یہ رقم بڑھا کر دوہزار روپے کر دی گئی ہے۔ تاکہ آزاد ہونے والا شخص آرام سے اپنے گھر پہنچ سکے۔ اب جیل کے مستقل ڈاکٹر کے علاوہ بھی محکمہ صحت کے دو ڈاکٹرز کو ہر جیل کی صحت کی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے یہ میڈیکل ٹیم آزادانہ حیثیت کی ہو گی۔ اور اس میں ایک مستقل ماہر نفسیات بھی ہوگا اور قیدیوں کی ذہنی صحت کو بھی اب رولز کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔نئے رولز میںمحکمہ جیل کی مشاورت سے اب سپرنٹنڈٹ جیل کی وہ اجارہ داری ختم ہو جائے گی جیسے وہ ایک بادشاہ تھا۔ اب شکایات کا ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ کوئی بھی قیدی بلا خوف اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی کا بلا خوف و خطر محکمے کو بتا سکتا ہے اور اس کے سدباب کا نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں