لاہور(پی این آئی) عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے فضائی آلودگی پر قابو نہ پایا تو معاشی تباہی کے ساتھ انسانی جانوں کے ضیائع میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم عمر بچے اور بزرگ اس سے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں جبکہ ملک میں مجموعی طور اوسط عمر بھی کم
ہورہی ہے .رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ شکار ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے جہاں ہر ایک لاکھ میں فضائی آلودگی ہلاک ہونے والوں کی تعداد 200ہے‘پاکستان میں عام شہریوں میں فضائی آلودگی یا شور کی آلودگی کے انسانی زندگیوں پر اثرات کے حوالے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اور عام طور پر شہری اسے سنجیدہ مسلہ نہیں سمجھتے کیونکہ حکومتیں اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں .رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہری گھروں کے اندر بھی فضائی آلودگی سے محفوظ نہیں ہے 36فیصد کم عمر بچے زہرآلود فضاءمیں سانس لینے کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں گزشتہ سال لاہور 235پوائنٹس کے ساتھ سب سے زیادہ آلودہ شہر تھا ‘کراچی 193پوائنٹس کے ساتھ دوسرے جبکہ تیسرے نمبر پر181پوائنٹس کے ساتھ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی، چوتھے نمبر پر162پوائنٹس کے ساتھ کرغزستان کا شہر بشکیک اور پانچویں نمبر پر 161پوائنٹس کے ساتھ چین کا شہر شینگ ژو دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہیں اسی خدشے کی بنیاد حال ہی میں عالمی بینک کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ ہے جس کے مطابق پاکستان کے شہروں کا شمار دنیا کے ان مقامات میں ہوتا ہے جہاں فضائی آلودگی سب سے زیادہ ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے.عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2005 میں 22 ہزار بالغ افراد شہروں میں ہوائی آلودگی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہو کر موت کا شکار ہوئے جب کہ اب اسی وجہ سے سالانہ 80 ہزار افراد علاج کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور 8 ہزار شدید کھانسی میں مبتلا ہوتے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانچ سال سے کم عمر کے پچاس لاکھ بچوں میں سانس کی بیماریاں ریکارڈ کی گئیں لیکن ان کے مرض کی شدت کم نوعیت کی تھی.پاکستان میں ماحولیات کے موضوع پرپچھلی ایک دہائی سے تحقیق کرنے والے صحافی اور ”اردوپوائنٹ“کے ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ماحولیات کو کبھی مسلہ سمجھا ہی نہیں گیا ہمارے پاس میٹھے پانی کے ذخائرخطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھے مگر ہم نے انہیں آلودہ کردیا انہوں نے وفاقی حکومت کی وزارت اطلاعات کے تحت شائع ہونے والے اردوسائنس میگزین کے لیے دوسال قبل لکھے گئے اپنے تحقیقاتی مقالے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ہاں سب سے
بڑا مسلہ اربنائزیشن ہے جسے روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیئے گئے.میاں ندیم کے مطابق ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم شدید غذائی بحران کا شکار ہیں کیونکہ صرف صوبہ پنجاب میں ہر سال 37ہزار آباد زرعی زمین رہائشی کالونیوں کی نذرہورہی ہے انہوں نے کہا کہ 1990کی دہائی تک حالات کافی تک کنٹرول میں تھے کیونکہ اس وقت تک ملک میں لینڈمافیا اتنا طاقتور نہیں تھا اور کسان بھی اپنی نسل درنسل ملکیت زمینوں کو فروخت کرنا عیب سمجھتے تھے میاں ندیم کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے مسلم لیگ نون‘پیپلزپارٹی اور جنرل پرویزمشرف کی دس سالہ آمریت نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا .ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون 1980سے 1999تک اور پھر2008سے2018تک اقتدار میں رہی اور یہی وہ پریڈہے جس میں پنجاب کے اندر اربنائزیشن کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا سندھ میں پیپلزپارٹی زمینیوں کے ہیر پھیر میں ملوث رہی اور نئے شہروں کی منصوبہ بندی کی بجائے کراچی ‘حیدرآباد جیسے بڑے شہرپھیلتے چلے گئے سب سے تباہ کن دور جنرل پرویزمشرف کا رہا جس میں
چند مربع کلومیٹر کا شہر لاہور 150مربع کلومیٹرسے بڑا ہوگیا ان دس سالوں میں پنجاب میں موجودہ حکمران جماعت کے اتحادی چوہدری بردران پنجاب میں طاقتور حکمران تھے اگر ہم پنجاب کے فضائی آلودگی میں اضافے اور زراعت میں تنزلی کی بات کریں تو مسلم لیگ نون اور چوہدری بردران پر بڑی حد تک اس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے .انہوں نے کہا کہ 1970میں عالمی اداروں کی فنڈنگ سے وفاق اور صوبوں کے تحت شروع ہونے والے رولر سپورٹ پروگرام کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہیں مگر بدقسمتی سے وفاق اور صوبوں میں سے کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ رولرسپورٹ پروگراموں کے تحت آنے والی فنڈنگ کہاں گئی؟ ان پروگراموں کی تفصیلات کس کے پاس ہیں؟ یہ معلومات وفاقی یا صوبائی حکومتیں فراہم کرنے کو تیار نہیں .مشرف دور میں جو بیڑاغرق ہوا سو ہوا مگر پیپلزپارٹی اور پھر نون لیگ کی حکومتیں ”ڈیمج کنٹرول“کرسکتی تھیں مگر انہوں نے بھی اس سلسلہ کو جاری رکھا ملک میں اربن ٹرانسپورٹ پر بغیر کسی ہوم ورک کے پابندیاں عائد ہونے سے اس خلاءکو زیادہ بدترین متبادل موٹرسائیکل رکشوں نے پر کیا آج لاہور
جیسے بڑے شہر میں لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکل رکشے دھندناتے پھر رہے ہیں ان کی درست تعداد کا اندازاہ اس لیے نہیں لگایا جاسکتا کہ 99فیصد موٹرسائیکل رکشے رجسٹرڈ نہیں اسی طرح گاڑیوں کی فناسنگ سے ایک ایسا طوفان آیا جو آج تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا.انہوں نے بتایا کہ اگر آپ ایکسائزڈیپارٹمنٹ کا ریکارڈ دیکھیں تو 1990تک لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد بمشکل چار ‘پانچ ہزار تھی جو آج لاکھوں تک پہنچ گئی ہے تو ان کا دھواں اور شور کی آلودگی کہاں جارہی ہے؟ اسی طرح لاہور کے 70فیصد درخت محض 20سال میں کاٹ دیئے گئے جن میں کئی کئی سو سال پرانے درخت بھی شامل تھے ‘حکومتیں اپنی ضدکے لیے کس حد تک جاتی ہیں لاہور کی اورنج لائن ٹرین اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ہمیں اندازاہ ہی نہیں کہ اس کے شہر اور شہریوں پر ماحولیات اور شور کی آلودگی کے حوالے سے کتنے گہرے اثرات مرتب ہونگے ہماری حکومتوں نے تاریخی ورثوں کی پرواہ نہیں کی اور ان پر ٹرین چلادی‘نہر پر سٹرک کو چوڑا کرنے کے لیے لاکھوں درخت قربان کردیئے گئے.انہوں نے بتایا کہ اورنج لائن منصوبہ سامنے آنے پر انہوں نے
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خطوط اور اپنے مضامین میں تجویزدی تھی کہ شہر کا حسن خراب نہ کیا جائے اور انتہائی کم خرچ سے رنگ روڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلولے کی مدد سے ڈبل ٹریک تعمیر کردیا جائے رنگ روڈ کے انٹرچینج اور ٹرین کے اسٹیشنوں سے شہر کے مختلف علاقوں کے لیے اچھی بس سروس فراہم کردی جائے مگر افسوس کہ حکمرانوں نے جرمنی ‘جاپان اور کوریا سے 4500استعمال شدہ بسیں فراہم کرنے کی پیشکش کو ٹھکرادیا.اسی طرح ماہرین کی جانب سے اربنائزیشن کو روکنے کے لیے ڈویژنل ہیڈکواٹرزکی سطح پر اعلی تعلیم ‘صحت اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کی تجاویزکو بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا آج اگر اضلاع کی سطح پر یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کے کیمپس تعمیر ہورہے ہیں تو اگر 1970کی دہائی میں ماہرین کی تجاویزپر عمل درآمد کرلیا جاتا تو آج ہم ان مسائل کا شکار نہ ہوتے.دوسری جانب فضائی آلودگی اور ماحولیات کے نگران اداے کے سربراہ ڈاکٹر محمد خورشید نے بتایا کہ عالمی بینک کی اس رپورٹ کی تیاری میں ان کا ادارہ بھی شامل رہا اور اس جائزہ رپورٹ میں سامنے والے تحقیقی اعدادوشمار بلاشبہ ایک فکر انگیز امر ہے فضائی آلودگی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں لیکن اس کا سب سے زیادہ ذمہ دار انسان خود ہے صنعتی شعبے کی
طرف سے ماحولیاتی تحفظ کے منافی اقدامات اور گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اس کی بڑی وجوہات ہیں.انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں کی تعداد20 سالوں میں 20 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ6 لاکھ ہوچکی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اسی طرح ملک میں ہر روز تقریباً 54 ہزار ٹن صنعتی فضلہ جمع ہوتا ہے جس میں سے تقریباً 30 سے 50 فیصد غیر محفوظ طریقے سے جلا دیا جاتا ہے جیسے کہ ربڑ اور پلاسٹک وغیرہ توانائی کے بحران کی وجہ سے صنعتوں کے متبادل ایندھن جیسے کہ کوئلے وغیرہ پر منتقل ہونے سے بھی ہوائی آلودگی میں بہت اضافہ ہوا ہے.ڈاکٹر خورشید کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق 14 بین الاقوامی میثاقوں پر دستخط کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانا اس کی بین الاقوامی ذمہ داریوں میں شامل ہے متعلقہ اداروں کو وسائل فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں