اسلام آباد (این این آئی)وزیرِ اعظم عمران خان سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ملاقات کی جس میں ملکی پارلیمانی نظام پر تفصیلی گفتگو کی گئی وزیرِ اعظم نے اس موقع پر کہا کہ پارلیمان نا صرف قانون سازی بلکہ جمہوریت کے تسلسل کیلئے نہایت اہم اور ملک کا سب سے بڑا آئینی فورم ہے،تمام جماعتوں کو
پارلیمان کے تقدس اور جمہوری اقدار کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام پارلیمنٹ میں اپنے مسائل کی آواز اٹھانے کیلئے منتخب نمائندوں کی طرف دیکھتی ہے،پارلیمنٹ کی اصل طاقت عوام کی خدمت اور آئین کی پاسداری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کی حکومت یہ پانچ سال پورے کرے گی اور اگلے پانچ سال بھی ان کے ہی ہوں گے، جے یو آئی میں اختلافات شدید ہو گئے، سینئر رہنما نے مولانا فضل الرحمٰن کیخلاف علم بغاوت بلند کر دیا
کوئٹہ (پی این آئی) جمعیت علماء اسلام ف میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بھی حمایت کردی۔نجی ٹی وی کے مطابق مولانا شیرانی نے جمعیت علماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو جھوٹا قرار دے دیااور کہا کہ فضل الرحمان ہمیشہ سے جھوٹ بولنے کے ماہر ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کیلئے جلسے جلوس کر رہے ہیں، وہ خود سلیکٹڈ ہیں اور سلیکٹ ہو کر آئے ہیں۔انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بھی
حمایت کردی اور کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، ذاتی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہوں۔مولانا شیرانی نے کہا کہ انہیں عمران خان کی کئی پالیسیوں سے اتفاق ہے، عمران خان کی حکومت یہ پانچ سال پورے کرے گی اور اگلے پانچ سال بھی ان کے ہی ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ان کا مولانا فضل الرحمان سے اختلاف ان کے جھوٹ بولنے پر ہے۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ بلوچستان میں جے یو آئی کے پرانے کارکن الگ دفتر قائم کریں، جے یو آئی کسی کی جاگیر نہیں، یہ ان کی اپنی جماعت ہے تو اس لیے دوسری جماعت کیوں بنائیں۔ مولانا فضل الرحمن کی صدارت 2 بچوں کی مرہون منت ہے حافظ حسین احمدنے سربراہ جے یو آئی (ف)کو آئینہ دکھا دیا جے یو آئی رہنما حافظ حسین احمد کا نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی صدارت دو جماعتوں کی نہیں بلکہ دو بچوں کی مرہون منت ہے اور پوری پی ڈی ایم دو بچوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔جو بڑے لوگ ہیں وہ فطری طور پر جب کوئی غلطی کرتے ہیں تو وہ بھی بہت بڑی ہوتی ہے اور نا قابل تلافی ہوتی ہے، اسی لئے اسلام اور دین کے مطابق مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ہمارے ادارے تو موجود ہیں لیکن عہدیداروں کی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہیکسی اور کی۔انہوں نے کہا کہ ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فیصلے پہلے کر لیتے ہیں اور
مشاورت بعد میں کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ میں جب ہم کسی اور جنرل کے پاس گئے تھے تو ان کی یقین دہانی پر مارچ کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن تب یہ غلطی کس کی تھی اگر ادارے ہوتے تو اس شخص کو پکڑا جاتا جس نے 13 دن تک ہمارے ورکرز کو سردی میں لا کر بٹھائے رکھا اور جھوٹ کا سہارا لے کر ہمیں وہاں سے اٹھنے پر مجبور کیا۔حافظ حسین احمد کا ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ صورتحال بہت جلد واضح ہو جائے ابھی تک تو بات فروری تک پہنچی ہے، لیکن فروری کے آگے کشمیر کے حوالے سے کچھ جماعتوں کی منصوبہ بندی ہے، جنہوں نے گلگت بلتستان میں الیکشن لڑا تھا ، جب لوگ استعفیٰ دینے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو اس طرح سے ضمنی انتخابات کیلئے بار بار الیکشن کمیشن کو نہیںکہتے۔انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم کا فیصلہ ہو چکا ہے میثاق پر بھی دستخط ہوچکے ہیں اوراستعفوں کا بھی فیصلہ ہوگیا ہے مگر بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ای سی سی کا اجلاس بلا کر فیصلہ کیا جائے گا تو کیا پھر پی ڈی ایم کی ویٹو پاور پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے؟انہوں نے کہا کہ کچھ دوستوں کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ حافظ صاحب کی زبان پھسلی ہے، لیکن میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ حافظ صاحب کی زبان پھسلتی ہے اور نہ ہی چمک دیکھ کر ان کے پائوں پر پھسلتے ہیں، میری سیاسی
چالیس سالہ زندگی میں نہ کبھی زبان پھسلی ہے نہ ہاتھ پائوں پھسلے ہیں، لیکن جو پھسلے ہیں وہ قوم کے سامنے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ جب مجھے پارٹی سے نکالا گیا تب میں نے ان سے کہا تھا کہ جو نواز شریف کا بیان ہے کیا یہ پی ڈی ایم کا بیانیہ تھا جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں، میں نے کہا کہ جب میڈیا کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا تو میں انہیں کیا جواب دیتا کہ نواز شریف کا بیانیہ پی ڈی ایم کا بیانیہ ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں، جس پر میں نے ان سے پوچھا کہ پھر اس کی پاداش میں مجھے پارٹی سے کیوںنکالا گیا ہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ مولانا صاحب کا مسئلہ ہے۔حافظ حسین احمد کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کا بیانیہ پی ڈی ایم کا بیانیہ ہوتا تو جب کوئٹہ میں جلسہ ہوا تب ان کا وہ بیانیہ کیوں نہیں تھا ؟ گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسے میں وہ بیانیہ کیوں نہیں تھا؟ مجھے نہیں سمجھ آ رہی ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کی چمک سے مولانا فضل الرحمن چالیس سال تک ساتھ دینے والے ساتھی کو پارٹی سے نکال دیتے ہیں، میں بولنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن جب میرے کچھ ساتھیوں نے میڈیا پر آکر کہا کہ حافظ صاحب کی زبان سے پھسلی ہے تو مجھے مجبوراً آ کر بولنا پڑا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں