اسلام آباد (پی این آئی) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا لیکن شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنائے جانے پر کئی تحفظات بھی سامنے آئے جن میں سے کچھ تحفظات تو پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے ہی کچھ لوگوں نے ظاہر کر دئے۔ تفصیلات کے مطابق صحافی اعزاز
سید نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شیخ رشید کی بطور وزیر داخلہ تعیناتی کے لیے کام کا آغاز نومبر میں شروع ہوا تھا، ابتدا میں اُنہیں وزارتِ اطلاعات کی پیشکش کی گئی تھی جس سے وہ انکاری تھے ،اب انہیں وزیر داخلہ تعینات کیا گیا ہے تووہ وزیرداخلہ کے ساتھ وزیر اطلاعات کے طورپر بھی کام کررہے ہیں، کوئی خبرنامہ اور کوئی ٹی وی ٹاک شو ایسا نہیں جہاں شیخ رشید کا چرچا نہ ہو۔شیخ رشید کی بطور وزیرداخلہ تقرری سے تحریک انصاف حکومت کی کابینہ کے اندر بھی کچھ ارتعاش پیدا ہوا ہے، بعض وزراء احتجاج ریکارڈ تو نہیں کروا رہے مگرناقدانہ سرگوشیاں ضرورکررہے ہیں، شیخ رشید پر سب سے بڑا اعتراض ہی یہ کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن نہیں ہیں اور یہ اہم ترین وزارت تحریک انصاف کے پاس ہی رہنی چاہئیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کے پاس دس کے قریب کلیدی ادارے موجود ہیں مگر انٹیلی جنس کا کوئی آزاد ادارہ اس کی نگرانی میں کام نہیں کرتا۔اعزاز سید کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کا چونکہ اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں سے پرانا تعلق ہے، اس لیے توقع یہی ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ کو انٹیلی جنس معلومات کے حوالے سے مزید مستحکم کریں گے۔ ان کا اصل چیلنج سیاسی طور پر ان کے پی ڈی ایم سے نمٹنے کو تصورکیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا معاملہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات سے جڑا ہوا ہے، ظاہر ہے یہ معاملہ وزیرداخلہ کی بساط سے باہر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیخ رشید کا اصل چیلنج اداروں کی اصلاح ہونا چاہئیے نہ کہ اپوزیشن۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں