اسلام آباد (پی این آئی) کورونا ویکیسن کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی افواہیں گردش کر رہی ہیں جس میں سے سب سے حیران کن یہ ہے کہ کورونا ویکیسن کے ذریعے انسانوں میں ایک چپ داخل کی جائے گی۔اگرچہ یہ دعویٰ بالکل غلط ہے تاہم اس سے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف قسم کے سوال گردش کر
رہے ہیں۔اسی حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریسرچر اور برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر سلمان وقار کا کہنا ہے کہ کورنا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے بننے والی ویکسین میں نہ تو جانوروں کے اجزاء شامل ہیں۔اور نہ ہی اس کے ذریعے جسم میں کوئی ’چپ‘ ڈالی جا رہی ہے۔بعض عناصر کی جانب سے ویکیسن سے متعلق جھوٹی باتیں پھیلانے سے ملک بھر میں جاری ویکیسن لگانے کی مہم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بدھ کو شائع ہونے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق اس بات کا امکان کم ہے کہ نسلی اقلیتی پس منظر رکھنے والے اور کم آمدنی والے افراد نئی ویکیسن لگوائیں۔ڈاکٹر سلمان وقار نے مزید کہا کہ صرف مسلم کمیونٹی ہی نہیں بلکہ بعض دیگرکمیونٹیز اور نوجوان بھی ویکسین لگوانے کی مہم میں حصہ نہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رواں برس سے قبل فلو اور بچوں کو لگائے جانے والے بعض ٹیکوں میں پووک کے اجزاء بھی شامل ہوتے تھے تاہم اب اس حوالے سے آپشنز موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ فائزر بائیوٹک کی نئی ویکیسن اس حوالے سے مکمل طور پر محفوظ ہے لیکن اس کت متعلق غلط باتیں پھیلا جا رہی ہیں۔پبلک ہیلتھ باڈیز بھی اس تاثر کو موثر طور پر درست نہیں کر سکیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب لوگ کہتے ہیں کہ ویکسین میں ’جیلیٹن‘ ہے اور اب وہ ہماری بات سننے کو تیار نہیں حالانکہ وائرس سے زیادہ خطرے کا شکار بھی نسلی اقلیتوں کے افراد ہیں اگر وہ ویکسین نہیں لگوائیں گے تو بیمار ہو کر اسپتال پہنچ سکتے ہیں اور ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ابھی تو ویکیسین عمر رسیدہ افراد اور ہائی رسک والے افراد کو اگر ویکیسن کے بارے میں خدشات ہیں تو وہ اس بارے میں سائنسدانوں سے پوچھیں۔بجائے اس کے کہ سوشل میڈیا پر غیر تصدیق شدہ رپورٹس پر یقین کر لیا جائے۔ڈاکٹر وقار نے کہا کہ ویکیسن کے محفوظ ہونے سے متعلق امامز اور مسلم میڈیکل پروفیشنلز کے ذریعے غلط فہمیوں دور کی جائیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں