پاک فوج ایکشن میں آگئی، دور تک مار کرنیوالےایئر ڈیفنس سسٹم کا عملی مظاہرہ

گوجرانوالہ (پی این آئی) گوجرانوالہ کے قریب پاک فوج کی جنگی مشقوں کا انعقاد، دور تک مار کرنیوالےایئر ڈیفنس سسٹم کا عملی مظاہرہ ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق پاک فوج کی جانب سے گوجرانوالہ کے قریب جنگی مشقوں کا انعقاد کیا گیا ہے۔

مشقوں میں ایئراسپیس مینجمنٹ سسٹم اور دور تک مار کرنیوالےایئر ڈیفنس سسٹم کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔مشقوں کے دوران انٹیگریٹڈ ائیرڈیفنس اور دیگرفضائی دفاعی ہتھیاروں کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گوجرانوالہ کے قریب فوجی مشقوں کا دورہ کیا، ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان بھی آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔ آرمی چیف اور فضائیہ چیف کو مشقوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔ اس دوران آرمی چیف نے کہا کہ مستقبل میں میدان جنگ کے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مربوط تعاون ضروری ہے، اپنی عظیم قوم کی حمایت سے پاک فوج کسی بھی قسم کےخطرے سے نمٹنے کیلئے تیار ہے۔ ایئر ڈیفنس سسٹم کیا ہوتا ہے؟ کسی بھی ملک کے دفاع کے لئے ایئر ڈیفنس کا فول پروف ہونا ایک ضروری امر خیال کیا جاتا ہے۔فی زمانہ جنگ میں فتح و شکست کے لئے فضائی دفاعی نظام کی اہمیت مسلمہ امر ہے کیونکہ اب لڑائی کا انداز بدل گیا ہے اور میدانی یا بحری جنگ سے بھی پہلے فضائی حملے یا اسکے دفاع پر فتح و شکست کا انحصار کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کا فضائی دفاعی نظام ناقص ہے تو وہ چشم زدن میں دشمن کے سامنے ڈھیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ تہتر کی عرب اسرائیل جنگ اصل میںالیکٹرانک جنگ تھی جس میں امریکی انٹیلی جنس کے طیاروں نے مصر کے راڈار سسٹم کو جام کر دیا تھا جس کے نتیجے میں انوار السادات کو اس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔اس کی افواج اسرائیل کے حملوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہو گئی تھیں۔ راڈار اندھے ہو جانے سے اسرائیلی طیاروں کو مصر پر فضائی برتی حاصل ہو گئی اور اسرائیلی افواج مصر پر حاوی ہو گئی تھیں اور اسرائیلی ہیلی کاپٹر آرام سے نہر سویز کے کنارے اتر کر مصری ٹینکوں کو زنجیروں سے جکڑ کر اپنے ملک پہنچا رہے تھے۔ دہشت گردی کی حالیہ جنگ میں امریکہ نے ڈرون کو استعمال کر کے جنگ کوایک نیا موڑ دیا۔ ایبٹ آباد پر حملے کے لئے امریکی صدر باراک اوبامہ نے

وائٹ ہاؤس سے حملہ آور ہیلی کاپٹروں کو کنٹرول کیا اور سارے آپریشن کی ہزاروں میل کی دوری سے اس کی نگرانی کی ۔ ممبئی سانحے کے بعد بھارت نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی دھمکی دی ا ور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی فضائیہ کو متحرک کر دیا۔ دوسری طرف پاکستانی فضائیہ نے بھی اپنے لڑاکا طیارے فضا میں بلند کر دیئے۔ جس کی وجہ سے بھارتی طیاروں کو پاکستان میں داخلے کی ہمت نہ پڑی۔بھارت کو یہ بھی خدشہ لاحق تھا کہ اگر اس نے پاکستان کے خلاف کسی شرارت کا مظاہرہ کیا تو خطے میں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی بھارت کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے لئے قابل قبول نہیں اس لئے اسے ختم کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں جن میں سے ایک کوشش اسرائیلی ایئر فورس نے کی ۔ اس کے لڑاکا طیارے رنگ بدل کر جموں ایئر پورٹ پر پہنچا دیئے گئے تھے، پاکستان کی انٹیلی جنس کو اس کی اطلاع ملی تو پاکستان نے اپنے لڑاکا بمبار طیارے مسلسل پرواز کے لئے کہوٹہ کی فضاؤں میں بلند کر دیئے۔ اسرائیلی طیارے اپنا سا منہ لے کر واپس چلے گئے۔اسرائیلی طیاروںنے ایک کوشش اور بھی کی اور اس کی اسپیشل فورسز دبئی کے کسی اڈے پر پہنچا دی گئیں جسے یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ اچانک یلغار کر کے

کہوٹہ کو تباہ کر دے، پاکستان نے اسرائیل کی اس مذموم کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ واضح رہے کہ اسرائیل اس سے قبل ایک برق رفتار فضائی حملے کے ذریعے عراق کے ایٹمی مرکز کو تباہ کرنے کا دعویٰ کر چکا تھا۔پاکستان ان خطرات سے غافل نہیں ہے اورا س نے ملکی دفاع کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔حالیہ فضائی مشقیں اسی مہارت کا بین ثبوت ہیں جن میںفضائی دفاع کے نظام میںایل وائے اسی کی شمولیت نے فضائی دفاعی نظام کو فول پروف بنا دیا ہے۔ پاکستان اس سے قبل غوری، ابدالی، غزنوی میزائل بھی بنا چکا ہے جو اپنے ٹارگٹ پر روائتی اور ایٹمی اسلحہ کی ڈیلوری کے کام بھی آ سکتے ہیں۔زمین سے زمین ،زمین سے فضا اور سمند رسے فضا اور سمند سے سمندر میں مارکرنے والے میزائل بھی پاکستان کی مسلح افواج کے پاس موجودہیں۔ ہمارے مقابل بھارت بھی ہر قسم کے میزائلوں سے لیس ہے۔مگر پاکستان ہر خطرے کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے، سابق آرمی چیف راحیل شریف نے بھارت کی دھمکیوںکے جواب میں کہا تھا کہ پاکستان کولڈ یا ہا ٹ اسٹارٹ میں سے ہر امکانی چیلنج کا سامناکر سکتا ہے۔حالیہ جنگی مشقوں کے بعد یہ تو واضح ہو گیا کہ پاکستان اللہ کے فضل سے ناقابل تسخیر ہے۔ اس میںتو کسی کو شک نہیں رہنا

چاہئے مگر یہ جو ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر بھارت کی مسلسل خلاف ورزیوں کا سلسلہ ہے، یہ پاکستان کے لئے سخت درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ پاکستان ان کے جواب میںاندھا دھند گولہ باری نہیں کر سکتا ۔ دوسری طرف کشمیری مسلمانوں کی آبادیاں ہیں۔اسی طرح بھارت کی طرف سے ایک خطرہ دہشت گردی کی صورت میں درپیش ہے۔ یہ ایک غیر مرئی جنگ ہے۔ اس میں دشمن بے چہرہ ہے۔ وہ ہماری ہی صفوں میں شامل ہو کر اچانک وار کر دیتا ہے۔ اگرچہ اس خطرے کے سد باب کے لئے پاک فوج نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے مگر ا س کے امکان کو آئندہ کے لئے رد نہیں کیا جا سکتا جبکہ بھارتی وزیر اعظم مودی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو بھی اسی طرح حقوق دلوائیں گے جیسے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے لوگوںکو دلوائے گئے تھے۔ یہ دھمکی سیدھی سیدھی پاکستان توڑنے کے مترادف ہے ۔ ہمیں اس خطرے سے نبٹنے کے لئے تیاری کرناہو گی۔ اس کی ذمے داری افواج پاکستان پر بھی عائد ہوتی ہے اور پوری قوم پر بھی ۔ ہمیں ایک تو مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لئے کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔ دوسرے پوری قوم کو چوکس رہنا پڑے گا اور اپنی صفوں میںدشمن عناصر کو داخل ہونے

سے روکنا ہو گا۔اس مقصد کے لئے پاکستان میں سیاسی۔،حکومتی اور معاشی استحکام پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ تاکہ ہم دشمن کے سامنے یک جان ہو سکیں ۔اور مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔کوئی بھی جنگ مکمل قومی اتحاد اور یک جہتی کے بغیر نہ لڑی جا سکتی ہے ، نہ جیتی جا سکتی ہے۔ضرب عضب کے دوران قوم نے نیشنل ایکشن پلان کے تلے متحد رہنے کا عزم کیا تھا مگر یہ الگ بات ہے کہ اس نیشنل ایکشن پلان پر وفاق اور صوبوں نے کس حد تک عملی تعاون کیا ۔ اس نکتے پر غور کیا جائے تو مایوسی ہی مایوسی ہوتی ہے۔ہمیں قائد اعظم کے قول اتحاد تنظیم اور ایمان پر عمل کرنا چاہئے۔ اسلام بھی ہمیں اتحاد کا درس دیتا ہے۔پاکستان کو مغربی سرحد سے بھی خطرات در پیش ہیں جہاں افغانستان میں پچھلے سولہ برس سے امریکہ اور نیٹو کی افواج نے مورچہ لگا رکھا ہے۔ افغانستان کوئی سیر گاہ نہیں کہ وہاں اتنے مماملک کی افواج ڈیرے ڈال لیں۔ بلکہ یہ سب کچھ پاکستان کی اسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی مورچہ بندی ہے۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت اور افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اس لحاظ سے پاکستان کے خلاف

جارحانہ عزائم میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، ہمیں خوب چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان آئندہ پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا مگر مشرف نے پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلا اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ زرداری اور نواز کی پارٹیوں کی طرف سے مشرف کے ا س اقدام پر تنقید بھی ہوتی رہی اورساتھ ہی ان دونوں پارٹیوں کی حکومتیں مشرف کے فیصلے پر بھی قائم رہیں۔اس روئیے سے ظاہر ہوتاہے کہ ہم قومی دفاعی پالیسی پر متفق نہیں ہیں۔ اس خرابی کو دور کر کے ہی ہم مسلح افواج کی دفاعی صلاحیتوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں