اسلام آباد (پی این آئی) وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ روز نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی جس پر رد عمل دیتے ہوئے سینئیر صحافی و تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا کہ ہمارے ایک دوست خاور گھمن نے ڈی جی آئی ایس آئی سے سوال کیا کہ ملک میں جو سیاسی کھینچا تانی چل رہی ہے اس کا آخری حل کیا ہے؟ ہم کس طرف جا
رہے ہیں؟ جس پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض نے جواب دیا کہ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ۔میرے ذرائع کے مطابق انہوں نے ایک لائن میں یہ جواب دیا اور اس کے بعد اس حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ جنرل فیض کی اس بات پر ہم کڑیاں ملا کر دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلے شہباز شریف نیب حراست سے پیرول پر رہا ہوئے تو انہوں نے بھی اسی لفظ کا استعمال کیا اور کہا کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہونا چاہئیے۔مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام پر کہا کہ ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہونا چاہئیے۔اُن کے ہو بہو یہی الفاظ تھے۔ اس سے قبل گلگت میں بی بی سی کو دئے گئے انٹرویو میں مریم نواز نے بھی کہا تھا کہ بالکل ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہونا چاہئیے ، بات چیت ہونی چاہئیے لیکن پہلے عمران خان کو ہٹایا جائے تو پھر ہم عوام کے سامنے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب عمران خان نے بھی یہی بات کر دی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کبھی منع نہیں کیا ، پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہئیے۔لہٰذا ان کڑیوں کو ملا کر جو ایک تصویر بن رہی ہے وہ یہی ہے کہ ایک نیشنل ڈائیلاگ ہونا چاہئیے اور کہیں بیٹھ کر بات چیت ہونی چاہئیے اور اس پر اسٹیبلشمنٹ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تو پہلے ہی وزیراعظم کو کہہ رہی تھی کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ گلگت کے مسئلے پر ، نیب کے قوانین کے معاملے پر اور ایسی دیگر چیزوں پر بات چیت کے لیے آپ بیٹھیں۔ اور اگر کوئی اور ایشوز ہیں تو آپ بیٹھ کر سیاسی جماعتوں سے بات کریں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں