اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی کو اپنے دلائل ایک ہفتے تک تحریری طور پرجمع کرنے کی ہدایت کر دی۔ جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی
میں 6 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی دراخواستوں پر سماعت کی، جہاں بینچ کی تشکیل کے معاملہ بھی زیرغور رہا۔بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین شامل تھے۔دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ لطیف آفریدی ہسپتال میں داخل ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ پڑسوں بھی لطیف آفریدی کی طبیعت ناساز تھی، ہم چند باتیں پوچھنا چاہتے ہیں۔اس دوران ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ لطیف آفریدی نے کہا ہے نظرثانی درخواستوں پر، کیس کا فیصلہ کرنے والا 10 رکنی فل کورٹ ہی سماعت کر سکتا ہے۔ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے کہا کہ لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ اگر عدالت حکم دے تو تحریری دلائل جمع کرا دیں گے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لطیف آفریدی اگلے ہفتے تک تحریری دلائل جمع کرا دیں۔سماعت کے دوران سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ بھی دیا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جسٹس دراب پٹیل کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی۔اس پر منیر اے ملک نے جسٹس
دراب پٹیل کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل نے عدالتی روایات اور وقار کے مطابق بینچ کی تشکیل بارے میں لکھا۔انہوں نے منیر اے ملک سے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ پڑھ کر بینچ کی تشکیل سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔عدالتی استفسار پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہی بینچ نظرثانی کیس سن سکتا ہے جس نے مرکزی کیس کا فیصلہ دیا ہو اس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر فیصلہ دینے والے تمام ججز دستیاب نا ہوں تو کیا کرنا چاہئے؟ جس کے جواب میں منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کی عدم دستیابی الگ مسئلہ ہے تاہم تعداد پوری ہونی چاہئے۔ان کی بات پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم عدالتی روایات اور اصولوں کی بات کر رہے ہیں، جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ نظر ثانی کیس مرکزی بینچ کی جانب سے سنے جانے کی مثالیں موجود ہیں۔اس موقع پر عدالت میں موجود سینئر وکیل رشید اے رضوی اور حامد خان نے منیر اے ملک کے دلائل سے اتفاق کیا۔علاوہ ازیں سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ بھی آئیں اور انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر میرا بیان ججز کو اگر گراں گزرا تو دوبارہ معذرت خواہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ عرض کرتی ہوں کہ چیف جسٹس کیس میں فریق ہیں۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی تشکیل چیف
جسٹس کا اختیار ہے، بہتر ہوگا آپ اپنے معاون وکلا سے معاونت لیں، جس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میں مرکزی کیس میں فریق نہیں تھی، مجھے کیس کا ٹرانسکرپٹ فراہم کیا جائے۔ان کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ٹرانسکرپٹ کے لیے اپلائی کر دیں، آپ کو فراہم کر دی جائے گی۔بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے میں بینچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ تمام فریقین کے دلائل سامنے آنے کے بعد مناسب وقت پر جاری کریں گے۔اس کے بعد کیس کی سماعت کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں