غیر ملکی چینل کو انٹرویو دینے کے بعد حامد میر نے بھی اسحاق ڈار کا انٹرویو کرنے کی خواہش ظاہر کر دی مگر کیوں نہیں کر سکتے؟ نئی بحث چھڑ گئی

لاہور (پی این آئی) سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیا جس پر وہ سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کی زد میں ہیں۔ اسحاق ڈار سے برطانوی صحافی نے سخت سوالات کئے جس پر اُن کی بولتی بند ہو گئی اور وہ کوئی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔ اسی پر سوشل میڈیا صارفین

نے پاکستانی صحافیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسحاق ڈار کو شاید یہ لگ رہا تھا کہ وہ پروگرام ہارڈ ٹاک میں نہیں بلکہ کیپیٹل ٹاک میں بیٹھے ہیں۔سوشل میڈیا پر جاری اس تبصرے پر سینئیر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ میں بھی اسحاق ڈار سے سوالات کرنا چاہتا ہوں لیکن نہیں کر سکتا کیونکہ میں پاکستانی ہوں پاکستانی چینل پر کام کرتا ہوں پاکستان میں اسحاق ڈار سے انٹرویو کرنا ممنوع ہے یہ کون سا پاکستان ہے جس میں پاکستانی چینل بی بی سی پر اسحاق ڈار کا انٹرویو چلا سکتے ہیں خود ان کا انٹرویو نہیں کر سکتے۔یاد رہے کہ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سخت سوالات پر اسحاق ڈار کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ اسحاق ڈار دوران انٹرویو اپنی لندن میں موجودگی، جائیدادوں، علاج کے حوالے سے تند وتیز سوالات کا جواب نہ دے سکے۔ اسحاق ڈار نے اس انٹرویو کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی کافی وائرل ہوئیں۔ سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے دوران انٹرویو کہا تھا کہ میں تقریباً تین سال سے لندن میں ہوں اور میرے وکلا پاکستان میں مقدمات کو دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے نیب سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنی اہمیت بہت پہلے ہی کھو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ میں حکومت میں رہتے ہوئے بھی اس پر پریس کانفرنس کر چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ نیب کی حراست میں لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ درجنوں لوگوں کو مار دیا گیا ہے۔ جس پر انہیں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ بیرون ملک بیٹھ کر بھی ملکی اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں