لاہور(پی این آئی)معروف تجزیہ کار،اینکر پرسن اور سینئر صحافی نصر اللہ ملک نےکہا ہے کہ پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم اور اسے تسلیم کرنے کی انفرادی سوچ تو پائی جا سکتی ہے تاہم ،اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں کسی بھی سطح پر ایسی سوچ نہیں پائی جاتی،پاکستان میں کسی بھی جماعت کی
حکومت ہو فلسطینوں کو راضی کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تصور بھی محال ہے،سعودی عرب میں بھی پاکستان والی سوچ پائی جاتی ہے،سعودی عرب اور ایران کے تعلقات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ گئے ہیں ،سعودی عرب کے نزدیک ایران کا ساتھی ان کا دشمن ہے۔تفصیلات کے مطابق “وائس آف جرمنی”سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نصراللہ ملک کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوئی ہے اور کافی دیر سے اس پر کام بھی ہو رہا تھا ،اگرچہ سعودی عرب نے کئی خبروں کی تردید بھی کی ہے لیکن آپ دیکھیں مشرق وسطیٰ کے اندر اور جس طریقے سے یو اے ای کے ساتھ ان کی بات چیت ہوئی اور پھر آنا جانا شروع ہوا اس کے بعد سے یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ شائد سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور شائد سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے اور سفارتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں ،جہاں تک سعودی عرب اور ایران کی بات ہے دونوں ممالک کے درمیان بہت زیادہ دوریاں بڑھ چکی ہیں ،سعودی عرب کا ایران پر عدم اعتماد بہت بڑھ چکا ہے ۔جبکہ ایران بھی سعودی عرب پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے،دونوں ممالک پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے ہیں ،دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیاں بڑی واضح ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ سعودی عرب فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر کے اسے تسلیم کر کے سفارتی تعلقات بحال ہونے کی کوششیں ہو گئی ہیں تو یہ بڑی قبل از وقت بات ہے،سعودی عرب میں جس قسم کی حکومت ہے اور جو سعودی معاشرہ ہے ان کے لئے بڑا مشکل ہے کہ فوری طور پر ایسے فیصلے کئے جائیں ۔نصراللہ ملک کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے نزدیک جو ایران کا ساتھی ہے وہ سعودی عرب کا دوست نہیں ہو سکتا ،عرب ممالک میں سے بھی جو ایران کے ساتھ کھڑے ہوئے سعودی عرب ان کو اپنا ساتھی تصور نہیں کرتا ،میاں نواز شریف کے دور حکومت میں یمن کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے گئے اور ایوان کے ذریعے یہ فیصلہ کروایا گیا کہ ہم وہاں اپنی کوئی فوجی امداد نہیں بھیجیں گے اور کوئی فوجی سپورٹ نہیں دیں گے جس پر پاکستان کے ساتھ اُن کی ناراضگی ہوئی ،ایران کی پالیسی بھی یہی ہے ،دونوں ممالک نے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی تفریق طے کر لی ہے جو ان کے ساتھ ہے وہ ان کا دوست ہے اور جو ساتھ نہیں وہ ان کا دشمن ہے۔نصراللہ ملک نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے بڑا مشکل ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں،اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کے حوالے سےا نفرادی سطح پر تو کہیں نہ کہیں سوچ پائی جاتی ہے ،کشمیر کا مسئلہ ہوتے ہوئے بھی ہم ہندوستان کو تسلیم کرتے ہیں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا ہرج ہے؟یہ سوچ انفرادی سطح پر تو پائی جاتی ہے ،سعودی عرب میں بھی یہ سوچ انفرادی سطح پر پائی جاتی ہےلیکن اگر آپ یہ سمجھیں کہ سعودی عرب کی سوسائٹی اور عام لوگ کسی ایسے فیصلے کو فوری ہضم کرلیں گے تو میرا خیال ہے کہ یہ ناممکن ہے،اسی طرح پاکستان کے لئے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور اسے تسلیم کرنا مشکل ہے،پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی بات کریں ،پاکستانی حکومت کی بات کریں یا سیاسی لوگوں کی بات کریں تو میرا نہیں خیال کہ جب تک فلسطینی راضی نہیں ہوتے،جب تک فلسطین کے مسئلے کا کوئی ایسا حل نہیں نکلتا جو فلسطینوں کے لئے قابل قبول ہو اس وقت تک اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لئے کوئی بھی حکومت تیار نہیں ہو سکتی ،فلسطین کے دیرینہ موقف سے پاکستان کی کوئی بھی حکومت انحراف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں