اسلام آباد (پی این آئی) روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سال 2019-20ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی کنٹونمنٹ بورڈز میں داخلی آڈٹ کا ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفاعی سروسز کو سنگل لائن بجٹ گرانٹ ملتی ہے اور سی ایم اے (کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس) وائز بجٹ ایلوکیشن دستیاب نہیں ہے۔
اخراجات کے حوالے سے مفصل عنوانات تیار نہیں کیے جاتے جس سے 44.612? ارب روپے کے اضافی اخراجات ہوئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سویلین آڈٹ نظام برعکس، نظام کی بنیاد پر ڈیٹا کی عدم دستیابی دفاعی شعبہ کے آڈٹ میں رکاوٹ ہے۔پاک فضائیہ اور پی اے سی کامرہ میں 1986ء کے فنانشل ریگولیشنز کے بعد سے مساعدہ کی بنیاد پر چلنے والا بعد از آڈٹ اور اکاؤنٹنگ کا نظام استعمال کیا جاتا ہے۔وقتاً فوقتاً ڈیفنس سروسز میں آئی ٹی کی مداخلت کی وجہ سے اے جی پی کی منظوری کی بغیر ہی طریقہ کار اور فارمز پر نظرثانی ہوتی رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیٹابیس میں انٹرنل کنٹرولز جیسا کہ پے رول ماسٹر ڈیٹا، انونٹری، پنشن وغیرہ، اور ساتھ ہی انٹرنل آڈٹ بشمول آئی ٹی آڈٹ کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملٹری اکاؤنٹنٹ جنرل (ایم اے جی) کے ماہانہ اخراجات کے اعداد و شمار کو جمع کرنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں جس سے اکاؤنٹنگ کی رپورٹس کے درست ہونے پر شبہات پیدا ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایم اے جی سے سی ایم اے تک کے ڈیٹا مینجمنٹ کی ڈی سینٹرلائزیشن میں معیار کی ضمانت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ رپورٹس جمع کرنے کیلئے سی ایم ایز سے ایم اے جی تک اکاؤنٹنگ ڈیٹا کا سسٹم کی بنیاد پر انتقال پرانے کاغذ کے نظام پر چل رہا ہے۔سی ایم اے، ایم اے جی اور سی ایل اے (کنٹرولر لوکل آڈٹ) کی سطح پر مستند کوالٹی کنٹرول سسٹم لانے کی ضرورت ہے جس کے بعد پرانا نظام ختم کرنا چاہئے۔رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ
اخراجات بشمول ہر لین دین (ٹرانزیکشن) کی تفصیلات، بجٹ کی تفصیلات اور اتھارٹی کی منظوری کی باضابطہ اطلاع دینے کے معاملات پوری دفاعی سروسز میں نافذ کرنا چاہئیں جیسا سویلین اداروں میں ہوتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چیکس کی تعداد کم کرنے کیلئے ادائیگیوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے معاملے میں پختگی نہیں، جہاں بھی ایسا کیا گیا ہے وہاں
پی ایم اے ڈی (پاکستان ملٹری اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ) کے کام کاج کے عمومی طریقہ کار سے علیحدگی اختیار کی گئی ہے اور اس کیلئے کام کاج کو پی ایم اے ڈی کے ایچ آر اور متعلقہ جے ڈیز (جوائنٹ ڈائریکٹرز) سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔آڈٹ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ۱) پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر (پی اے او) کو چاہئے کہ وہ ایسی ہدایات جاری کرے کہ آڈٹ کے قابل دستاویزات آڈٹ کے
دوران آڈٹ ٹیموں تک پہنچائی جائیں تاکہ آڈٹ کے قابل ریکارڈ کو پیش نہ کیے جانے کے واقعات سے بچ سکیں۔ ۲) ڈیفنس پرچیز پروسیجر اینڈ انسٹرکشنز میں موجود خریداری کے متعلق ضوابط اور ہدایات (پبلک پروکیورمنٹ رولز اور انسٹرکشنز) پر من و عن عمل ہونا چاہئے۔پی پی آر اے کو دفاعی اداروں کے تربیتی کورسز کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ ۳) کنٹونمنٹ بورڈز کو چاہئے کہ
وہ مناسب انداز سے زونز کی ریگولیشنز پر عمل کریں تاکہ جائیدادوں کے غلط استعمال سے بچ سکیں اور ساتھ ہی مکینوں کو بروقت اور موثر انداز سے سہولتیں مل سکیں۔ ۴) A-I زمین کے غیر مجاز استعمال پر روک تھام ہونا چاہئے اور اسے مخصوص مقاصد کیلئے ہی استعمال ہونا چاہئے۔اس طرح کی زمین کے استعمال سے ہونے والی آمدنی کو شفاف رکھا جائے
اور اسے پبلک اکاؤنٹس میں ظاہر کرنا چاہئے اور اسکروٹنی کیلئے آڈٹ کے روبرو پیش کرنا چاہئے۔ ۵) انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ حکومت کی بقایہ جات کی ریکوری کیلئے اقدامات کرے ان کی نشاندہی اس رپورٹ میں کی گئی ہے، ساتھ ہی ذمہ داروں کا تعین بھی کیا جائے۔ ۶) سی این ای فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کے
اسٹور کی قیمت ریکور کی جا سکے اور ساتھ ہی سی این ای کے حصہ سے حاصل ہونے والے منافع کو تقسیم کیا جا سکے۔ ۷) ملٹری لینڈز اور کنٹونمنٹ ڈپارٹمنٹس میں اہلیت کے حامل باصلاحیت افسران پر مشتمل داخلی آڈٹ ونگ تشکیل دی جائے تاکہ بے ضابطگیوں کے خطرات دور کیے جا سکیں۔ ۸) سرکاری رہائش گاہ رکھنے والوں کو ایچ آر اے (ہاؤس رینٹ الاؤنس) نہ دیا جائے۔
پالیسی کے مطابق یہ ریکور کیا جائے۔ ۹) وزارت دفاع اور وزارت دفاعی پیداوار کو چاہئے کہ تین سروسز اور دیگر دفاعی اداروں کی جانب سے اختیار کی گئی آٹومیشن کے نتیجے میں جو فارمز اور ضابطے تبدیل (ریوایز) کیے گئے ہیں ان کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 170(1) کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے بات کی جائے۔ ۱۰) ایگزیکٹو اور اکاؤنٹ آفس کے
درمیان حسابات کا ماہانہ تصفیہ (ری کنسی لیشن آف اکاؤنٹس) کیا جائے تاکہ بجٹ اور اکاؤنٹس کے اعداد و شمار کے مستند ہونے کا پتہ لگایا جا سکے۔ ۱۱)۔سی ایم اے وائز بجٹ مختص کیا جائے تاکہ لین دین کی ہر سطح (ٹرانزیکشن لیول) پر بجٹ کے موثر کنٹرول کو یقینی بنایا جا سکے۔ ۱۲) وزارت دفاع اور وزارت دفاعی پیداوار کی جانب سے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی
مشاورت کے ساتھ بینک گارنٹی کی تصدیق و توثیق کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ ۱۳) دفاعی سروسز سے جڑی کمرشل سرگرمیوں جن میں زمین، ڈیری، میڈیکل، ڈی پی اسٹیبلشمنٹ وغیرہ شامل ہیں، کا حجم دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ موجودہ انتظامات کو باضابطہ شکل دینے کیلئے قواعد تیار کیے جائیں اور ایس او پیز اور ڈرلز سے آگے بڑھ کر کنٹرولز متعارف کرائے جائیں۔ ۱۴)
یونٹس کو ادائیگیوں کی منظوری کے معاملے میں غیر سرکاری فنڈز کیلئے سی ایم اے چیک جاری نہ کیے جائیں۔ ۱۵) انجینئرنگ آفسز سے جڑے یونٹ اکاؤنٹنٹ (یو اے) آفس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں باضابطہ اکاؤنٹ آفس بنایا جائے اور انہیں سسٹم بیسڈ اکاؤنٹ سسٹم کے ذریعے سی ایم ایز کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا کا تبادلہ ہو سکے۔ ۱۶)
گزشتہ کئی برسوں کے دوران آڈٹ کی جانب سے کرایے کی ریکوری اور متعلقہ مصارف کا معاملہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔وزارت دفاع کو انتہائی سرگرمی کے ساتھ یہ معاملہ حل کرنا چاہئے۔ ۱۷) ہر آڈٹ رپورٹ میں کنٹونمنٹ بورڈز میں داخلی کنٹرول کے کمزور ہونے کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔وزارت دفاع اور ایم ایل اینڈ سی کو چاہئے کہ وہ ان بورڈز میں کنٹرولز کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کریں اور قیمت کے مطابق سہولت کی موثر فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اس میں ایم ایل اینڈ سی میں داخلی آڈٹ کا ڈھانچہ تشکیل دینا بھی شامل ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں