لاہور(پی این آئی) قومی رابطہ کمیٹی نے جلسے جلوسوں پرپابندی لگانے کا متفقہ فیصلہ نہیں کیا تھا، وزیراعظم نے این سی سی کا نام لے کر جلسے جلوسوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، اجلا س میں کچھ رہنماؤں نے کہا یہ سیاسی مسئلہ ہے، مشاورت سے متفقہ فیصلہ کیا جائے، لیکن حکومت نے اپنے جلسوں کی
ناکامی کے بعد اپوزیشن کے جلسوں پر پابندی کا فیصلہ کیا۔سینئر تجزیہ کار حامد میر نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں اپنے تبصرے میں کہا کہ قومی رابطہ کمیٹی کا جو اجلاس ہوا، اس بارے کہا گیا ہے کہ این سی سی کے اجلاس میں طے ہوا ہے کہ جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی جائے۔ اس اجلاس کے بعض شرکاء سے میری بات ہوئی تو مجھے پتا چلا کہ اس اجلاس میں جلسے جلوسوں پر پابندی کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔اسد عمر نے بھی تصدیق کی ہے کہ جلسوں پر پابندی کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں تھا۔سندھ حکومت کی نمائندگی عذرا پیجو کررہی تھیں ان کا بھی کہنا تھا کہ سیاسی سطح پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے بھی کہا کہ یہ سیاسی سطح پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وزیراعلیٰ جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے۔ انہوں نے بھی کہا کہ اگر ہم جلسے جلوسوں پر پابندی لگا بھی دی تو اپوزیشن اس کو قبول نہیں کرے گی۔ اس لیے اس حوالے سے اپوزیشن سے بات کرنی چاہیے۔حامد میر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان نے قومی رابطہ کمیٹی کا نام لے کر جلسے جلوسوں پر پابندی لگانے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن این سی سی میں کوئی متفقہ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔اس کے برعکس اگر پاکستان میں کورونا وائر س کو پھیلنے سے روکنا ہے تو جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔ لیکن حکومت نے جلسے روکنے کی بجائے اپوزیشن کے مقابلے میں جلسے شروع کردیے ، جب آپ نے دیکھا کہ حکومتی جلسوں میں اتنے لوگ نہیں آرہے جتنے اپوزیشن کے جلسوں میں ہیں، تو آپ نے جلسوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا۔جلسے روکنے کیلئے سب کو مل بیٹھ کرمشترکہ حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔جبکہ حکومت کو چاہیے کہ حکومت ہونے کا کردار ادا کرے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں