اسلام آباد(پی این آئی)کورونا کی آڑ میں تعلیمی ادارے بند کرنے کی کوشش نامنظور،پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نے واضح اعلان کر دیا۔آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین نے کہاہے کہ عالمی ادارہ صحت کی ایڈوائزری کی روشنی میں دنیا بھر میں تعلیمی ادارے کورونا کی
دوسری لہر کے باوجود کھلے رکھے جارہے ہیں ایسے میں حکومت پاکستان کی طرف سے تعلیمی ادارے بند کرنے کا ممکنہ فیصلہ ناقابل یقین اور ناقابل عمل ہے،انتہائی ناگزیر صورتحال میں 15دسمبر سے5جنوری تک تعلیمی ادارے بند کرکے قرنطینہ کا دورانیہ پورا کیا جائے جبکہ اس دوران سرکاری ونجی دفاتر، بینک، ٹرانسپورٹ، ریلوے،ایئرپورٹ وغیرہ بھی بند کیے جائیں،صرف تعلیمی ادارے بند کرنے سے مطلوبہ مقاصد حاصلہونے کی بجائے صرف ناقابل تلافی تعلیمی نقصان کے ساتھ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہوگااور کہاہے کہ حکومت کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے لازمی مشاورت کرے بصورت دیگر نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے شدید مزاحمت کی جائے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں منعقدہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ایسوسی ایشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل محمد اشرف ہراج،صوبائی صدر پنجاب راجہ الیاس کیانی،صدر کالجزونگ جاوید اقبال راجہ،مرکزی نائب صدر رانا سہیل احمد،سردار گل زبیر خان،ڈاکٹر افراہیم ستی،ذوالفقار علی صدیقی،زاہد حسین،قاسم عباس،راجہ لیاقت علی خان،میڈم نسیم اختر، میڈم رفعت نقوی و دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔پریس کانفرنس سے خطاب میں ملک ابرارحسین کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کی طویل بندش سے پہلے ہی ناقابل تلافی تعلیمی و مالی نقصان ہوچکاہے، نجی تعلیمی ادارے حکومتی اعلان کردہ ایس او پیز پر مکمل عمل کررہے ہیں،نجی تعلیمی اداروں کے اس تعاون کواین سی او سی،وزارت تعلیم اور خود وزیراعظم پاکستان سراہ چکے ہیں۔سخت ناگزیر حالات میں پندرہ دسمبر سے پہلے تعلیمی ادارے بند نہ کیے جائیں اور سردی کی چھٹیوں کادورانیہ مختصررکھا جائے۔تعلیمی سیشن کو تاخیر کا شکار نہ کیا جائے، ملک کے پسماندہ اور دوردراز علاقوں میں سخت گرمی کے دنوں میں امتحانات کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔طویل بندش سے ہزاروں تعلیمی ادارے پہلے ہی بند ہوچکے ہیں،بہت سے ادارے مالی مسائل کا شکار ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف پیکج بھی نہیں دیا گیا،اگر حکومت سکول بند کرناچاہتی ہے تو نجی تعلیمی اداروں کے لیے ریلیف پیکج بھی فراہم کرے۔تعلیمی اداروں کے ساتھ نہ صرف لاکھوں اساتذہ،ملحقہ اسٹاف کا روزگار وابستہ ہے بلکہ پک اینڈ ڈراپ سروس، کنٹین، یونیفارم، سٹیشنری کی اشیائ ،کتب شاپس،پرنٹنگ پریس وغیرہ کی سہولت دینے والے لاکھوں لوگوں کا بھی روزگار وابستہ ہے۔سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو جاری رکھا جائے۔انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں کی فوری بندش کا فیصلہ ناقابل عمل ہے اس لیے ایسا کوئی فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔دنیا بھرمیں کورونا کی دوسری لہر کے دوران تعلیمی ادارے بند نہیں کیے گئے ہیں ایسے میں پاکستان میں ایسا کرنا تعلیم دشمنی کے مترادف ہے،اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت کی ہدایت کے مطابق دوبارہ سکول بند نہیں کیے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں صرف تعلیمی ادارے ہی ایسی جگہ ہیں جہاں ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کیا جارہاہے،اگر تعلیمی ادارے بند کرنا ناگزیر ہیں تو پندرہ دسمبر سے پانچ جنوری تک بند کرکے قرنطینہ کے ایام پورے کیے جائیں کیونکہ اس میں لاک ڈاؤن کے مطلوبہ ایام پورے ہوجاتے ہیں،بازاروں،منڈیوں، فیکٹریوں،کارخانہ جات، ٹرانسپورٹ، ریلویز،ایئرپورٹ، بنکوں اور تمام قسم کے دیگر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر ایک ساتھ ہی بند کیے جائیں ورنہ صرف تعلیمی اداروں کی بندش قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ نجی شعبہ کے دو لاکھ تعلیمی اداروں کے پندرہ لاکھ اساتذہ اورپانچ لاکھ کے قریب دیگر معاون عملہ بے روزگار ہوجائے گا،حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہ کیا جائے بصورت دیگر ملک بھر میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے شدید مزاحمت کی جائے گی اوراس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوگی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں