کراچی (این این آئی) ملیرایکسپریس وے منصوبے کاسنگ بنیاد نہ رکھا جاسکا،قبضہ گروپوں نے منصوبے کے مجوزہ روٹ پراربوں کی قیمتی آراضی پرقبضے کرکے رہائشی کالونیوں کا سنگ بنیاد رکھ دیاہے،ملیرندی کی چوڑائی کم کرکے اربوں روپے مالیت کی 1400 ایکڑزمین حاصل کرنے اورملیرایکسپریس وے روٹ کی
زد میں آنے والی آبادیوں کومعاوضہ کی ادائیگی کے فیصلے کے بعد ملیرندی بند کے اطراف قبضہ گروپ سرگرم ہوگئے ہیں،40 ارب روپے کی خطیررقم سے تیارکیے گئے ملیرندی کے قدرتی حفاظتی بندوں کونقصان پہنچانے پرحکومت ادارے خاموش ہیں۔حکومت سندھ کے واضح اعلان کے باوجودنومبرکے دوسرے ہفتے میں کراچی کے 39 ارب روپے مالیت کے میگاترقیاتی منصوبے ملیرایکسپریس وے کا سنگ بنیاد نہیں رکھاجاسکا ہے لیکن دوسری جانب قبضہ گروپ ملیرندی کی چوڑائی کم کرکے مصنوعی بند بناکراربوں مالیت کی قیمتی آراضی پرقبضہ کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں اورقائد آباد سے قیوم آباد تک ملیرندی کی زمین پرقبضوں کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں۔ایک نجی ادارے کی جانب سے ملیرندی میں ڈی ایچ اے فیز7 سے متصل اربوں مالیت کی 213 ایکڑقیمتی آراضی قبضہ کرنے کے لیے رات کے اندھیرے میں مشینری کے ہمراہ کارروائی کا عمل گذشتہ دوہفتوں سے جاری ہے جبکہ شاہ فیصل کالونی،عظیم پورہ ، قائد آباد اورملیرکے قریب مختلف مقامات پرملیرندی کے اندرمصنوعی بند بناکراس کی چوڑائی کم کرکے ملیرندی کی آراضی پرتجاوزات قائم کرنے کا سلسلہ تیز کردیاگیا ہے،رہائشی آبادیاں قائم کی جارہی ہیں تاکہ ملیرایکسپریس وے منصوبہ کے آغازپرایکسپریس وے کے لیے مطلوبہ آراضی حاصل کرنے کے لیے قابضین کومعاوضہ دے کرزمین واگذار کرائی جائے۔ڈیفنس فیز7 قیوم آباد کے نزدیک ملیر ندی کے اندر سے 213 ایکڑ زمین حاصل کرنے کے لیے سیاسی اوربعض نجی اداروں کے مابین کھینچاتانی کا سلسلہ بھی تیزہوچکا ہے اسی طرح منظور کالونی سے ڈیفنس ویو تک ملیر بند کی اونچائی کے برابر بھرائی کر کے اربوں روپے کی قیمتی زمین ہتھیانے کی کوشش کوعملی جامہ پہنایا جارہا ہے جبکہ چالیس ارب روپے مالیت کے ندی کے قدرتی قیمتی بندوں کونقصان پہنچانے کا کسی سرکاری ادارے نے تاحال نوٹس نہیں لیا ہے۔معمتد ترین ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیرایکپسریس وے کے مجوزہ منصوبے کے روٹ پرواقع ملیرندی کی آراضی ہتھیانے کے لیے جوگروہ سرگرم ہیں وہ رات کے اندھیرے میں تین مختلف اضلاع کی حدود میں کام کررہے ہیں اورملیرندی کی چوڑائی کم کرکے ندی کے اندرمصنوعی بند بناکرقدرتی بند کومٹانے کے لیے سرگرم ہیں تاہم ملیر،کورنگی،ضلع شرقی کے ڈپٹی کمشنرزنے بین الاقوامی اورملکی قوانین کے برعکس ملیرندی کا قدرتی سائزچھوٹا کرکے زمین ہتھیانے والے کسی گروہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے اورنہ ہی حکومت سندھ کی جانب سے معاملے کا تاحال کوئی نوٹس لیا گیا ہے۔واضح رہے کہ 2013 میں قیوم آباد کے ملٹی پل فلائی اوور سے ڈیفنس اور ساحل تک ملیر ندی میں مٹی سے بھرائی کرکے 300ایکڑ زمین حاصل کرنے کا منصوبہ حکومت سندھ نے تشکیل دیا تھا جوبین الاقوامی اداروں کی مخالفت کے باعث ملتوی کردیا گیا تھا لیکن ملیرایکپسریس وے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے اورمجوزہ روٹ کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے لوگوں کومعاوضہ دینے کے فیصلے کے بعد ملیرایکسپریس وے کے مجوزہ روٹ پرقبضہ گروپوں کی جانب سے زمین قبضہ کرکے رہائشی آبادیاں قائم کرنے کا کام تیزکردیا گیا ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں