لاہور (پی این آئی) اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔گلگت بلتستان کے الیکشن سر پر ہیں اور اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی وہاں پر سینگ اڑائے ہوئے ہیںتاکہ گلگت بلتستان میں اپنی پوزیشن مضبوط کرسکیں۔ہمارے ملک کی سیاست اکثر معاہدوں اور میثاقوں کے ذریعے ہی چلتی ہے جبکہ حکومت بیساکھیوں
کے سہارے۔ کیونکہ وطن عزیز میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں بہت کم الیکشن میں ایک پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ ایوان میں پہنچی وگرنہ ہر دوسری حکومت کو اتحادیوں کا سہارا لینا پڑااور وہ بیساکھیوں کی مدد سے بڑی مشکل سے مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو پائے۔ان سیاستدانوں کی کرتوتوں کی وجہ سے مارشل لا بھی لگے اور جب ملکی حالات دگرگوں ہو گئے اور عوام دہائیاں دینے لگے تو آمروں نے تخت پر قبضہ بھی کیا۔اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار صابر شاکر نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ بھاگ بھاگ کر آرمی اور جرنیلوں کے پاس جاتے ہیں کہ ہمیں ریلیف دلا دیں اور بعد میں روتے بھی خود ہیں۔آج ن لیگ اوردوسری پارٹیاں جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے نکلوایا تو پھر یہ جاتے کیوں ہیں ان کے پاس۔محمد زبیر کون سی ڈیل کرنے گئے تھے۔ان کے سارے لیڈر جی ایچ کیوں جاتے ہیں کبھی قمر جاوید باجوہ یا پھر جنرل فیض تو جاتی عمرہ نہیں آئے تھے۔اس حوا لے سے جب ایک بار قمر جاوید باجوہ سے بات کی گئی کہ ترکی میں جب فوج نے منتخب صدر کو ہٹانے کی کوشش کی تو عوام سڑکوں پر آ گئے اور ”کُو“کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔اس پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پہلے ہمارے ملک کے حکمران طیب اردوگان جیسے لیڈر تو بن جائیں پھر مارشل لا بھی نہیں لگا کریں گے۔صابر شاکر نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ ساری سیاسی پارٹیاں خود این آر او لے کر حکمرانی میں آتی ہیں اور بعد میں آرمی اور افسران کے خلاف باتیں کرتی ہیں جبکہ ان کے اپنے کردار پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں