لاہور (پی این آئی )سینئر تجزیہ کار ہارون الرشید نے کہا ہے کہ ہماری صورتحال الجھتی چلی جارہی ہے ، ہیجان بھی بڑھتا چلا جارہا ہے ، چند چیزیں واضح ہیں،ن لیگ میں شکست وریخت جاری ہے ،ثنا اللہ زہری اور عبد القاد ر بلوچ اصول پسند سیاستدان نہیں ہیں،عبد القادر بلوچ کی دو شکایات ہیں،ایک شکایت یہ ہے کہ مجھ سے بلوچستان بارے کبھی مشورہ ہی نہیں کیا گیا،
مجھے وہ وزارت دی گئی جس کا بلوچستان سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا،نظر انداز کیا گیا ، کوئی اہمیت نہیں دی گئی،ان کو اینٹی آرمی اور اینٹی پاکستان چیزیں اچھی لگتی ہیں،ان کو کوئی سادہ آدمی اچھا نہیں لگتا ،آج دیکھیں کہ بلوچستان میں پاکستان کے حق میں کیسی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔اینٹی پاکستان بیانیہ پر مولانا محمدخشیرانی جو کہتے تھے کہ میں جمعیت علمائے ہند کا ممبر ہوں وہ فضل الرحمان سے اختلاف کررہے ہیں،حافظ حسین احمد اختلاف کررہے ہیں ،میں نے کہا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام اور ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ ہوگی،ابھی مزید ٹوٹ پھوٹ ہونے والی ہے،مزید رہنما پارٹی بیانیہ کی وجہ سے پارٹی چھوڑ جائیں گے ،مریم خاموش ہیں،شاہد خاقان نے ایک ٹی وی کو درخواست کرکے انٹرویو دیا اور یہ کہا کہ ہم اداروں کے خلاف نہیں ہیں۔دوسری طرف عمران خان جلسے کرنے کیلئے میدان میں اتر آئے ہیں،سوات اور حافظ آباد کے جلسے بڑے تھے ،معیشت گرداب سے نکل رہی ہے اور کچھ پیسے حاصل ہونے کی امید ہے ،نوازشریف کسی سے وفادار نہیں ہیں،نوازشریف کے بیانیے کی کوئی رہنما تائید نہیں کررہا،فوج ایک خاندان اور ادارہ ہے ،جہانگیر ترین نے کلیئر سگنل دیا ہے کہ میں مصالحت چاہتا ہوں ، نواز شریف فوج کو بغاوت پر اکسائیں تو کیا حکومت آپ پر پریشر نہ ڈالے ،گلگت بلتستان الیکشن میں مقابلہ سخت ہے ،عموماً ایسے رہا ہے کہ جس کی حکومت مرکزمیں ہوتی ہے اس کی حکومت گلگت بلتستان میں بنتی ہے ۔ دوسری جانب موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں جہانگیر ترین کی واپسی ہو چکی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی طاقت میں پھر اضافہ ہو چکا ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں