کیا اب زائد بلوں سے جان چھوٹ جائیگی؟ حکومت نے سستی ترین بجلی خریدنے کی خوشخبری سنا دی

اسلام آباد(پی این آئی) وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں 70 فیصد بجلی درآمدی ایندھن پر بن رہی ہے جبکہ اس کے برعکس ہمارے پاس وہ سارے ذخائر تھے جن سے بجلی بنائی جاسکے تاہم سابقہ حکومتوں سے اپنی ذاتی لالچ کے لیے اسے ترک کیا اور جو معاہدے انہوں نے کیے تھے اس سے بجلی کا یونٹ 24

روپے فی یونٹ کیا تھا تاہم ہم نے وہی معاہدے ساڑھے 6 روپے فی یونٹ پر کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان 2 برسوں میں ہم نے صحیح طریقوں سے فیصلے کیے اور متبادل قابل تجدید بجلی کے لیے ہم نے منصوبہ بنایا جس کے تحت 2025تک ہماری 25 فیصد بجلی کی پیداوار قابل تجدید توانائی سے ہوگی اور 2030 تک یہ 30 فیصد تک جائے گی اور ہم 18 ہزار میگاواٹ کو چھویں گے۔وزیرپانی وبجلی عمر ایوب نے کہا کہ اس کے علاوہ پن بجلی بھی 30 فیصد ہوگی جبکہ اس کے علاوہ تھرکول سے 8 سے 10 فیصد بجلی ہوگی جس کا مطلب ہے کہ 70 سے 80 فیصد ہمارا توانائی کا حصول قوم کے وسائل سے ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں کوئی بھی کارخانہ جو پاکستان میں بجلی پیدا کرتا ہے وہ ملک میں کہیں بھی اپنا گاہک ڈھونڈ کر براہ راست بجلی بیچ سکے گا، یہ وہ دورست ترامیم ہیں جو ہم کرنے جارہے ہیں اور اس سے بجلی کی قیمتوں میں استحکام آئے گا اور صنعت کا پہیہ تیزی سے چلے گا. وفاقی وزیرصنعت وپیدوار حماد اظہر نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت تھی کہ صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی کی جائے تا کہ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار نے کہاکہ حکومت نے ایک بڑا اور سخت فیصلہ کیا ہے جس کی کابینہ نے بھی منظوری دے دی ہے، اس کے تحت 24 گھنٹے آف پیک آورز کی قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی کیوں کہ اس سے قبل کئی دہائیوں سے یہ ہورہا تھا کہ 7-11 بجے پیک آور کے درمیان بجلی کی قیمت زیادہ ہوجاتی تھی. انہوں نے کہا کہ جو صنعت اضافہ بجلی فراہم کرے گی اگر اس کا کنکشن بی 1، بی2 اوربی 3 کا ہے تو آئندہ برس جون تک اضافی بجلی پر 50 فیصد رعایت دی جائے گی‘انہوں نے کہا کہ ہر قسم کی صنعت کے لیے 25 فیصد اضافی بجلی استعمال کرنے پر گزشتہ سال کی نسبت رعایت دی جائے گی۔انہوں نے کہ پوری دنیا کساد بازاری سے گزر رہی کے اور عالمی معیشت کی 4 فیصد منفی شرح نمو ہے ہم مثبت نمو کررہے ہیں، ہماری سیمنٹ کی فروخت، گاڑیوں، موٹرسائیکلز، ٹریکٹر، کھاد، ٹیکسٹائل،تعمیراتی سے وابستہ اور بڑے پیمانے کی صنعتوں میں تیزی ہے لیکن یہ آرڈر پورے نہیں کر پارہے لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی پیداوا بڑھانے کے لیے ضروری تھا کہ بجلی کی لاگت کم کی جائے تا کہ یہ پیک آورز کے درمیان کو شفٹس بند کردی جاتی تھیں انہیں بھی چلایا جائے. حماد اظہر نے کہا کہ ان تمام اقدامات سے روزگار پیدا ہوگا، منڈیوں میں تیزی آئے گی اور صنعت کا پہییہ تیز چلنے کے ساتھ ہماری صنعت مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت کی حامل ہوگی جس سے قیمتوں میں فرق پڑے گا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں