کراچی (این این آئی)قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ اور عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ آج کی پریس کانفرنس کے ذریعے اس گفتگو کا مقصد وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی طرف سے سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں عافیہ کے معاملے پر سینیٹ کے معزز اراکین کو
بریفنگ دینا اور تحریری جواب جمع کرانا ہے۔ جس کی وجہ سے میرے پاس فون پر فون آرہے ہیں۔ کوئی مجھے مبارکباد دے رہا ہے تو کوئی مزید تفصیلات پوچھ رہا ہے اور کوئی اسے حکومتی پروپیگینڈہ قرار دے رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس حکومت کی طرف سے عافیہ کے بارے میں کوئی تحریری یا مصدقہ اطلاعات نہیں ہے جو میں پاکستان کے لوگوں سے شیئر کرسکوں مگر میں عافیہ کی رہائی میں تاخیر کی وجوہات اور عافیہ کو وطن واپس لانے کی حکومتی کوششوں کے بارے میں غیرسنجیدگی کا سوال اٹھائوں گی ۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال کے جواب میں سینیٹ کو بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے رحم کی اپیل پر دستخط کر دیئے ہیںاور حکومت جیل حکام کے توسط سے رحم کی اپیل امریکہ کے صدر کو بھیج رہے ہیں۔ محترم بابر اعوان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے بس میں ہوتا تو عافیہ کو 24 گھنٹے کے اندر پاکستان واپس لے آتے ۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عافیہ ای میل اور ٹیلی فون کے ذریعے اپنے خاندان سے رابطے میں ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ بابر اعوان صاحب ملک کے معروف وکیل ہیں وہ بتائیں کہ عافیہ سے متعلق جو رپورٹ سینیٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی ہے اس کے مصدقہ ہونے پر کیا انہیں یقین ہے؟ عافیہ نے گذشتہ سال 12 دسمبر، 2019 ء کو رحم کی اپیل پر نہیں بلکہ سزا میں تبدیلی کیلئے پٹیشن (Petition for Commutation of Sentence) پر دستخط کئے تھے ۔جس کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے ۔ یہ درخواست حکومت کے پاس ایک سال سے موجود ہے۔ جسے امریکہ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے توسط سے پارڈن اتھارٹی کے پاس جمع کرایا جانا چاہئے تھا ۔مگر کیا یہ رپورٹ جمع کرادی گئی؟ اس کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں مل رہا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ رحم کی اپیل (Clemency Petition)کی جو بات کی جارہی ہے تو ہمارے وکلاء نے ہمیں بتایا ہے کہ رحم کی اپیل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قیدی نے آدھی سزا کاٹ لی ہو۔ اس حساب سے عافیہ کو 43 سال کی سزا مکمل کرنے کے بعد رحم کی اپیل کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ میں آج کی پریس کانفرنس کے توسط سے پوری قوم کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم اہلخانہ میں سے کسی کا بھی عافیہ سے ای میل ، ٹیلی فون ، ویڈیو لنک کسی بھی ذریعے سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور عافیہ کی رہائی کیلئے دائر پٹیشن پر حکومت اگر سنجیدگی سے عمل کرتی تو کرونا کی پہلی لہر کے دوران جب امریکہ میں حالات انتہائی خراب تھے عافیہ کو بآسانی پاکستان واپس لایا جاسکتا تھا۔ اب جبکہ بابراعوان صاحب نے سینیٹ میں سزا میں تبدیلی کی بجائے رحم کی اپیل کی بات کی ہے تو اس نئے حکومتی دعوے سے میں اور میرے اہلخانہ مکمل طور پر لاعلم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دور میں ایک مرتبہ بھی اہلخانہ کا عافیہ سے خط، ای میل یا ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی عافیہ کو لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نا ہی اہلخانہ کو آگاہ کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ حکومت، پاکستانی قوم اور عافیہ موومنٹ کا بنیادی اور مشترکہ کا مقصد عافیہ کی جلد سے جلد رہائی اور پاکستان واپسی ہے تاکہ پاکستانی قوم اقوام عالم میں سرخرو ہوسکے اور بیٹی فروشی کا جو دھبہ ہماری تاریخ پر لگ گیا ہے اسے دھویا جاسکے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں