اسلام آباد(این این آئی)آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے سرکاری اداروں بشمول پیٹرولیم ڈویڑن اور اس کی ذیلی تیل اور گیس کمپنیوں میں مالی سال 19-2018 کے دوران 15 کھرب 43 ارب روپے کی بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی نشاندہی کی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے وزارت
توانائی، پیٹرولیم ڈویژن میں انتظامی کمزوریوں پر سنگین تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘پیٹرولیم لیوی اور رائلٹیز، گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس۔ گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کے واجبات کی ریکوری، ریونیو رسیدوں کی کلیکشن اور جائزے کی نگرانی کے لیے کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔رپورٹ کے مطابق اس کے نتیجے میں ایک کھرب 46 ارب 7 کروڑ60 لاکھ روپے کی نان ٹیکس رسیدوں کی عدم وصولی کے کیسز نوٹ کیے گئے۔موجودہ حکومت کے پہلے مالی سال سے متعلق اپنی رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، پی پی ایل، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کے کیسز میں مالی غلطیاں بھی دیکھی گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری شعبے کے انٹرپرائزیز (پی ایس ایز) کی جانب سے صارفین سے قابل وصول ادائیگیوں کی عدم وصولی کے 16 کیسز 7 کھرب 92 ارب 77 کروڑ 80 لاکھ روپے کے برابر ہیں۔اے جی پی نے کہا کہ اس کے آڈٹ کے نتیجے میں رپورٹ میں 11 کھرب روپے سے زائد کی ریکوریز کی نشاندہی کی گئی تھی اور جنوری تا دسمبر 2019 کے مابین 15 ارب 23 کروڑ 90 لاکھ روپے کی ریکوریز کی گئیں جس کی آڈٹ میں تصدیق ہوگئی۔اے جی پی نے پیٹرولیم ڈویژن اور اس کی 16 پی ایس ایز کے 53 کھرب 84 ارب روپے کے مجموعی اخراجات اور 3 کھرب 47 ارب روپے کی نان ٹیکس رسیدوں کا جائزہ لیا۔آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نئی تعیناتیوں، دوبارہ بھرتیوں اور ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے پی ایس ایز ریگولیشنز کو مدِ نظر نہیں رکھ رہی تھیں، اس میں بھرتیوں کے عمل میں تضادات کے حوالے سے بطور خاص پیٹرولیم ڈویژن، او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کا ذکر کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق او جی ڈی سی ایل انتظامیہ نے 1989 اور 2016 کے مابین دریافت ہونے والی 12 فیلڈز کی ترقی میں پیٹرولیم کی پیداوار عدم آغاز کے باعث تاخیر کی جس کے نتیجے میں ساڑھے 69 ارب روپے کے ریونیو کا نقصان ہوا۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ او جی ڈی سی ایل نے گیس کے کم پریشر کی سیل پروسیڈ کے 7 ارب 40 کروڑ روپے قومی خزانے میں نہیں جمع کروائے اور متروکہ پلانٹس کی انسٹالیشن سے ریونیو نقصانات کا سامنا کیا۔اسی طرح آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے 2 ارب روپے حکومتی کھاتوں میں جمع کروانے کے بجائے ٹریڑری بل میں سرمایہ کاری کردی۔اوگرا پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے فنانس ڈویژن کی مرضی کے بغیر سروس ریگولیشنز تشکیل دئیے جس سے 69 کروڑ 93 لاکھ 80 ہزا روپے کے بے قاعدہ اخراجات ہوئے۔آڈیٹر کے مطابق گیس کمپنیوں نے گیس چوری کے کیسز کی پیروی نہیں کی جو ایک ارب 25 کروڑ 80 لاکھ روپے کے برابر ہے اس کے علاوہ آڈیٹرز نے تعیناتیوں کے 8 کیسز میں 39 کروڑ 10 لاکھ روپے کی بے ضابطگیوں کی بھی نشاندہی کی۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ جب ملک کو گیس کی قلت کا سامنا تھا تو پیٹرولیم ڈویڑن ایکسپلوریشن اور پیداواری کمپنیوں کی جانب سے کام میں کوئی پیش رفت ظاہر کیے بغیر لائسنسز میں ناجائز توسیع دیتا رہا۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے 2016 کے درمیان مجموعی طور پر 158 ایکسپلوریشن لائسنسز جاری کیے گئے جس میں 37 کمپنیوں نے واپس کردیے یا ہائیڈرو کاربن کی دریافت میں ناکامی پر پر پیٹرولیم ڈویڑن نے واپس لے لیے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں