اسلام آباد (پی این آئی)شہباز شریف کا نام ECL میں ڈالا جائے گا یا نہیں؟ نیب کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آ گیا ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست
خارج کر دی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزم اس وقت عدالتی تحویل میں ہے۔جسٹس منیب نے سوال کیا کہ پراسیکیوٹر صاحب! آپ نے 4 دن پہلے آنے والا 7 رکنی بینچ کا فیصلہ پڑھا ہے؟نیب کے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے جواب دیا کہ جی نہیں پڑھا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر پڑھا ہوتا تو آپ ایسے دلائل نہ دیتے، ہائی کورٹ کے احکامات کے وقت شہبازشریف پر سفری پابندی غیر ضروری تھیں۔نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اب کیس میں کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔جسٹس منیب اخترنے کہا کہ عدالت نے اُن حالات کو دیکھنا ہے جب ہا ئی کورٹ نے حکم جاری کیا۔نیب کے وکیل نے کہا کہ نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں شامل کیا تھا، لاہور ہائی کورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف کا کیس مشکوک ٹرانزیکشنز کی وجہ سے سامنے آیا، وہ مشکوک ٹرانزیکشنز کی وجہ سے کرپشن کے مرتکب ہوئے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مشکوک ٹرانزیکشنز کرپشن کے زمرے میں نہیں آتیں، جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں عدالت اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کی تشریح کر چکی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جب یہ درخواست دائر کی گئی تھی اس وقت صورتِ حال مختلف تھی، نیب جس کا نام ای سی ایل میں ڈالنا چاہتا ہے وہ ملک کی نامور شخصیت ہے۔نیب کے وکیل نے کہا کہ اکثر ملزمان ای سی ایل میں نام نہ ہونے کی وجہ سے فرار ہو جاتے ہیں، انکوائری کے مراحل میں مختلف مقدمات کے 6 ملزمان ملک سے بھاگ چکے ہیں، ملزم اس وقت عدالتی تحویل میں ہے، جس پر آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے، ملزم منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے۔جسٹس منیب اختر نے ان سے سوال کیا کہ منی لانڈرنگ سے متعلق 4 دن پہلے 10 رکنی فل کورٹ کا فیصلہ آیا ہے، آپ فیصلہ پڑھ کر کیوں نہیں آتے؟عدالتِ عظمیٰ نے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی نیب کی درخواست خارج کر دی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں