اسلام آباد (پی این آئی) دفاعی تجریہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا ہے کہ ادارے سب سے پہلے یہ واضح کردیں کہ پاکستان کی فوج تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے
کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کسی پارٹی کے آرمی چیف نہیں ہوتے، کیوں کہ جب بھی کوئی سپہ سالار بن جاتا ہے تو وہ پاکستان کی سات آٹھ لاکھ فوج کا چیف آف آرمی اسٹاف ہوتا ہے، تاہم اس معاملے میں اپوزیشن کی طرف سے بھی زیادتی کی جارہی ہے، حزب اختلاف کو بھی یہ سوچنا چاہیئے کہ جب نوازشریف اقتدار میں تھے اور 2014ء میں مسئلہ بنا تھا تب فوج تو کھل کر انہیں سپورٹ کرنے کے لیے آئی تھی، لیکن اس وقت تو کسی نے بھی یہ الزام نہیں لگایا کہ یہ نوازشریف کی فوج ہے،جو انہیں سپورٹ کرنے کے لیے آگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کو سیاست سے نکالنے میں چیف آف آرمی سٹاف جو کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں ، ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور اس سارے بیانیے سے خدا کے لیے فوج کو نکال دیں ، کیوں کہ اس سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔اس ضمن میں سینئر صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں اہم فیصلے کر لیے گئے ، فیصلہ کیا گیا کہ کسی قسم کی بلیک میلنگ نہیں چلے گی،کسی دباؤ میں نہیں آیا جائے گا ، پاکستان کو خوشحالی اور امن کی طرف لے جانے کے لیے پاکستان کی فورسز نے لمبا سفر کیا ہے ، پاکستان میں امن قائم کرنے کے لیے عوام نے اور فورسز نے قربانیاں دی ہیں ، اتنی کوششوں کے بعد ملک کو استحکام کی جانب لے جایا گیا ہے لہذا اب کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے ،چاہے سیاسی عناصر ہوں یا غیر سیاسی جو بھی آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا،جو بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اسے کوئی رعایت نہیں دی جائے گی ، پاکستان کو کمزور کرنے والے سیاسی و غیر سیاسی عناصر اور جمہوری و غیر جمہوری عناصر کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں