اسلام آباد(آئی این پی ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آئی جی کے گھر کا محاصرہ اور اغوا کا ذمہ وزیراعظم عمران خان پر عائد ہوتا ہے، آئی جی سندھ کو اغوا کر کے مقدمہ درج کرنے کیلئے دبا وڈالا گیا، آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف اپنے افسران کی تفتیش کر سکتے
ہیں، تمام تر معاملے کی ذمہ داری وزیراعظم پر عائد ہوتی ہے،وزیراعظم قانون کی پامالی پر لگ جائیں تو ملک کا کیا بنے گا ؟ ایک سابق وزیراعظم کو ویزہ رکھنے پر نکالا گیا، ہمیں توقع تھی سینیٹ اس معاملے کو اٹھائے گی، معاملے پر سینیٹ کمیٹی بننی چاہیئے، مریم نواز، آئی جی سندھ، عوام کو انصاف کہاں سے ملے گا، ملک میں آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔جمعرات کو رہنما مسلم لیگ (ن) و سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل کا بیان مریم نواز اور لیگی قائدین کے حوالے سے ہیں اس کی وضاحت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے آج خود چادر اور چار دیواری کو پامال کرنے میں مصروف ہیں، حقیقت یہ ہے کہ کیپٹن صفدر کو ہوٹل کا دروازہ توڑ کر گرفتار کیا گیا، کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے حقائق بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سندھ کے آئی جی پولیس کو صبح دو بچے گرفتار کر کے مقامی آئی ایس آئی کے دفتر لے جایا گیا اور ایف آئی آر درج کرنے کا پریشر ڈالا گیا،اس واقعہ کے بعد سندھ پولیس چھٹیوں پر چلی گئی جبکہ گھر مکا محاصرہ کرنے والے سندھ رینجرز کے سپاہی اور افسران تھے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ رینجرز اور آئی ایس آئی دونوں ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہیں، رینجرز وزارت داخلہ کو اور آئی ایس آئی وزیراعظم کو رپورٹ کرتی ہے، اس تمام واقعہ میں وفاق، صوبے پر حملہ آور ہوا ہے، جو حقیقت ہے اور بدنصیبی ہے کہ آئی جی سندھ سارے واقعہ کی ایف آئی آر کروانے سے بھی قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر صوبے کا آئی جی پولیس اغواء کرلیا جاتا ہے تو پھر صوبے میں کون محفوظ ہے، پوے واقعہ میں وزیراعظم نے کوئی رابطہ نہیں کیا، وزیراعلیٰ سندھ اور بلاول زرداری کی پریس کانفرنس تک بھی کوئی رابطہ وفاق نے نہیں کیا، اس عمل کے بعد بلاول زرداری نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے واقعہ کی انکوائری کی درخواست کی، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آئی جی سندھ 22 گریڈ کے افسر ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی 22گریڈ کے افسر ہیں جبکہ ڈی جی رینجر21 گریڈ کے افسر ہیں، مزید یہ کہ آرمی ایکٹ کے مطابق عمل پر انکوائری ہو گی کہ جو حکم دیا گیا وہ قانونی تھا یا نہیں جبکہ ہوٹل کا دروازہ توڑنے کا معاملہ آرمی چیف کے انکوائری کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، یہ تفتیش ضروری ہے اور معلوم کرنا ہو گا کہ چادر اور چار دیواری کو پامال کرنے کی ہدایت وزیراعظم کے دفتر تک جاتی ہے اور اس پر جواب دینا ہو گا، وزیراعظم نے حلف کی پاسداری توڑی ہے اور غیر قانونی احکامات دیئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ افسران کے تبادلے پر از خود نوٹس لیتی رہی ہیں لیکن آئی جی کے اغواء اور آئین توڑنے پر کوئی نوٹس نہیں لیا، وزیراعظم کو سوموٹو نوٹس لے کر نکالا گیا، لیکن آج چادراور چار دیواری کو پامال کیا جاتا ہے اور ہماری عدالتیں خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری کو ن کرے گا، کیسے کرے گا، اس کا تعین کرنا مشکل ہے، ہمیں توقع تھی کہ سینیٹ کی ایک کمیٹی بنے گی جوصوبے اور وفاق کی درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ہے لیکن افسوس ہے کہ پارلیمان مفلوج اور عدالتیں خاموش ہیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں