لاہور (پی این آئی)سینئر صحافی حامد میر کااخبارمیںکالم شائع ہو۔ جس میں انہوں نے عمران خان کی جانب سے فوج سے متعلق ماضی میں دیئے گئے بیانات اور بائیوگرافی میں لکھے گئے الفاظ کا ذکر کیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق حامد میر کا اپنے کالم میں کہناتھا کہ وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کی ایک ایسی
تقریر پر شدید برہمی کا اظہار کیا جو پاکستان کے کسی ٹی وی چینل پر نشر ہی نہیں ہوئی۔ پی ڈی ایم کی طرف سے گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں بھی جلسہ کیا جا چکا ہے لیکن پوری کی پوری حکومت نواز شریف کی تقریر میں پھنسی ہوئی ہے اور اِس تقریر کا اتنا زیادہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ جس نے یہ تقریر نہیں سنی، وہ بھی اِسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سن رہا ہے۔ 16اکتوبر کی شب نواز شریف نے وڈیو لنک پر اپنی تقریر شروع کی تو ان کا موضوع مہنگائی تھا۔عمران خان اور ان کے وزراءنواز شریف کی تقریر کی مسلسل مذمت کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔ نواز شریف کے کچھ متوالوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پنجاب کے کسی لیڈر نے ایک حاضر سروس آرمی چیف پر اِس طرح کھل کر تنقید کی ہے۔ میں ان متوالوں سے معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔نواز شریف سے پہلے بھی ایک لیڈر نے اِس سے بڑھ چڑھ کر ایک حاضر سروس آرمی چیف پر تنقید کی تھی۔ یہ لیڈر بھی نواز شریف کی طرح لاہور میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا۔ اس نے اپنی پارٹی بھی لاہور میں بنائی اور پہلی انتخابی کامیابی پنجاب کے شہر میانوالی سے حاصل کی۔ اس لیڈر کا نام عمران خان ہے۔ نواز شریف نے جو کچھ16اکتوبر کی شب کہا، وہ سب کچھ عمران خان 2002سے 2013کے درمیان ایک دفعہ نہیں، کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں۔گوجرانوالہ کے جلسے سے اگلے دن وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد مسلم لیگ ن پر پابندی لگنی چاہئے۔ شیخ صاحب یاد رکھیں کہ عدالتوں کے ذریعے مسلم لیگ ن پر پابندی لگوانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان تقریروں کا ذکر بھی آئے گا جو عمران خان نے نواز شریف کے لب و لہجے میں کیں۔ تقریروں کو چھوڑیے، عمران خان کی بائیو گرافی کو دیکھ لیں جو 2011ءمیں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کے صفحہ 222پر عمران خان نے پاکستان آرمی کے بارے میں جو لکھا ہے، میں اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ آج کل پاکستان آرمی کے جوان اور افسران ہر دوسرے دن اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔میں عمران خان کے الفاظ دہرا کر فوج کی بحیثیت ادارہ توہین نہیں کرنا چاہتا۔کتاب کے صفحہ 223پر عمران خان نے آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل احتشام ضمیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حال لکھا ہے جو عمران خان سے جنرل پرویز مشرف کی حمایت مانگ رہے تھے۔ عمران خان نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کر دی جس کے بعد احتشام ضمیر نے تقاضا کیا کہ عمران خان گرینڈ نیشنل
الائنس میں شامل ہو جائیں کیونکہ اِسی الائنس نے 2002کا الیکشن لڑ کر مخلوط حکومت بنانا تھی۔ عمران نے اعتراض کیا کہ آپ نے اِس الائنس میں کئی چور اکٹھے کر لئے ہیں تو احتشام ضمیر نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے عوام چوروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔آگے چل کر عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں شارٹ ٹرم فائدوں کے لئے لانگ ٹرم فائدوں کو قربان کر دیا جاتا ہے اور یہی ہمارے خفیہ اداروں کی میراث ہے، جنہوں نے ہمیشہ کسی باقاعدہ وسیع البنیاد تجزیے کے بغیر ایسے فیصلے کئے جن سے ملک کو شدید نقصان ہوا۔ عمران خان نے صفحہ 223پر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اپنی 23جولائی 2002کو ہونے والی ملاقات کا حال لکھا ہے جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود تھے۔ اِس ملاقات میں مشرف نے انہیں ان سیاستدانوں کے نام بتائے جو آنے والی مخلوط حکومت میں شامل ہوں گے جس پر عمران خان نے مشرف سے کہا کہ اِن کرپٹ لوگوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہو کر میں اپنی ساکھ برباد نہیں کر سکتا۔جواب میں مشرف نے کہا کہ اگر آپ ہمارا اتحاد جائن نہیں کریں گے تو آپ ہار جائیں گے۔ صفحہ 225پر عمران خان نے لکھا ہے کہ میرے انکار کے بعد آئی ایس آئی نے میرے امیدواروں کو ڈرانا دھمکانا
شروع کر دیا اور انہیں مسلم لیگ (ق) میں شامل کرانا شروع کر دیا، پوری ریاستی مشینری میرے خلاف کام کر رہی تھی۔ 2007میں جنرل پرویز مشرف نے آئین معطل کیا تو عمران خان وکلاءتحریک میں بہت سرگرم تھے اور اس تحریک میں انہوں نے جنرل مشرف کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ نواز شریف سے زیادہ سخت تھی۔آج عمران خان وزیراعظم ہیں اور نواز شریف کی طرف سے جنرل باجوہ پر لگائے جانے والے الزامات کی مذمت کر رہے ہیں۔ چلیں ہم بھی نواز شریف کے الزامات کی مذمت کر دیتے ہیں لیکن کیا عمران خان کی طرف سے جنرل پرویز مشرف اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے ان الزامات کی مذمت کی جائے گی جن کا ذکر انہوں نے اپنی بائیو گرافی ”اے پرسنل ہسٹری“ میں کیا ہے؟ کتاب کے آخری صفحے پر انہوں نے لکھا ہے کہ اب میری پارٹی پاکستان میں وائلڈ فائر یعنی جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔ مان لیتے ہیں آپ جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکے ہیں اور نواز شریف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اِس آگ پر پانی ڈالا جائے۔ یہ جنگل ہم سب کا ہے اِس جنگل کو انتقام کی آگ نے جلا ڈالا تو باسی کدھر جائیں گے؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں