اسلام آباد (پی این آئی) سینئر تجزیہ کار و صحافی سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ یہ جو مرحلہ ہے اس میں ہمیں ایجنسیاں یا اسٹیبلشمنٹ اس طرح سے نظر نہیں آرہی ، کم از کم جلسے جلوسوں کے پہلے راؤنڈ میں اس میں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیئے، شاید ابھی حتمی فیصلہ تو وہ
نہیں کرسکے، کیوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں فریق آمنے سامنے آئیں اور وہ اندازہ کرسکیں کس فریق میں کتنا وزن ہے۔تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درمیانی راستہ تو ہمیشہ موجود ہوتا ہے، اس بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ درمیانی راستہ اب بھی موجود ہے، سوال یہ ہے حکومت بھی تیار نہیں ہے اور اپوزیشن بھی تیار نہیں، کیوں کہ اس صورتحال میں حکومتوں نے کچھ دینا ہوتا ہے اور اپوزیشن نے کچھ لینا ہوتا ہے، لیکن جب حکومت کا رویہ اس طرح کا ہوکہ یہ ڈاکو ہیں تو پھر ظاہر ہے اپوزیشن بھی آگے سے جواب تو دے گی، اس لیے میرا نہیں خیال کہ راستے بلکل بند ہوچکے ہیں، میرا یہ بھی نہیں خیال کہ بلکل ڈیڈ لاک ہوچکا ہے، کیوں کہ اس طرح کے دباؤ میں ہی حکومتیں مذکرات کے لیے تیار ہوتی ہیں، اور ایسی صورتحال میں ہی اسٹیبلشمنٹ میں بھی سوچتی ہے کہ کوئی راستہ نکالا جائے، کیوں کہ جب تک دباؤ نہیں ہوتا سارے فریق سکون میں ہوتے ہیں۔پروگرام میں پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ اگر حکومت کی طرف سے جلسے میں رکاوٹ ڈالی گئی اور قائدین کو اس میں شرکت سے روکا گیا تو اس سے حکومت کت جمہوری رویے پر بہت بڑا سوال کھڑا ہوجائے گا، آج جو جمہوری آزادیاں ہیں ان پر سوال کھرا ہوجائے گا، اور پھر وزیراعظم عمران خان کی اپنی جمہوری جدوجہد اور دھرنے میں ملنے والی آزادی پر بھی سوالیہ نشان آجائے گا، حکومت کی حکمت عملی صرف یہ ہوگی کہ آخری وقت تک ڈرایا جائے، دھمکایا جائے، رکاوٹیں بھی ڈالیں گی جو کہ آخری وقت میں اٹھادی جائیں گی، لیکن اگر فرض کریں کہ یہ قائدین کو روک لیں تو پھر ہر جلگہ جلسہ گاہ نہیں ہوگی بلکہ لڑائیاں ہوں گی،پتھراؤ ہوگا اور ڈر ہے کہ کہیں کوئی جانی نقصان نہ ہوجائے تو اسی لیے حکومت اور انتظامیہ کو اس طرف نہیں جانا چاہیئے، جب کسی کو روکا جاتا ہے تو وہ مزاہمت کرتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں