لاہور( این این آئی )وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وداخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ سنا ہے شہباز شریف آج کل نیب تحویل میں خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں،ملازمین اور بے نامی لوگوں کے نام پر جعلی کمپنیاں بنائی گئیں ، بے نامی اکاو نٹس سے 22 ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کی گئی،کم آمدنی والے 12 ملازمین
کے نام کھولے گئے بے نامی اکاو نٹس کے ذریعے 15 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جبکہ دیگر کچھ ملازمین کے نام پر 7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جو کہ ڈبل فیک کمپنیاں تھیں،شہبازشریف جن فرشتوں کو بھینسوں کا کروڑوں کا دودھ بیچتے تھے وہ سامنے آچکے ہیں،7 ارب کے اثاثوں سے متعلق ریفرنس دائر ہوچکا ہے ، کاروبارکے بھیس میں کک بیکس،کرپشن وصولی کی جاتی تھی اور ان چیزوں کے واضح ثبوت ہمارے پاس موجودہیں،شہباز شریف عدالت میں چائنا کے حبیب جالب نظرآتے ہیں، شہباز شریف اضطراب کی حالت میں ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب بھتیجی نے ان کی جماعت ہتھیا لی حالانکہ آپ اتنے عرصے سے کوشش کر رہے تھے، اگر آپ کا خاندان وزٹ ویزے پر ہے تو زیادہ سے زیادہ قیام کی مدت 180 دن ہوتی ہے، 6 ماہ سے زیادہ آپ وزٹ ویزے پر نہیں رہ سکتے، شہباز شریف صاحب کیا آپ کا سارا خاندان برطانیہ کی شہریت حاصل کر چکا ہے؟ کیونکہ اور تو کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ کا خاندان وہاں کس قانونی حیثیت میں رہ رہا ہے یا آپ کے خاندان سے وہاں کی حکومتیں کوئی خاص رویہ رکھے ہوئے ہیں، دعوی سے کہا ہوں جوچیزیں پیش کروں گاان کے پاس ان کا جواب نہیں ہوگا،اب سمجھ آتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی اور بینکنگ نظام پر کڑی نظر رکھنے کے لیے بنائے گئے قوانین کی شدید مخالفت کیوں کی گئی ۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے
کہا کہ 2016 اور 2017 میں ملک مقصود نامی چپڑاسی اس کے اکائونٹ میں 3.7 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی اور مختلف کھاتوں سے ڈلوایا گیا، جیسے ہی ٹی ٹی کے مقدمات کی تفتیش کا آغاز ہوا تو ملک مقصود ملک سے فرار ہو گیا اور اس کے لیے نوٹسز بھی جاری ہو چکے ہیں۔دوسرے شخص رمضان شوگر مل کے ایک چپڑاسی محمد اسلم ہیں جن کی 18سے20 ہزار تنخواہ ہے اور اس کے اکائونٹ 2014 سے 2017 تک 2.3 ارب روپے جمع کرایا گیا، اسی طرح رمضان شوگر مل کے کلرک اظہر عباس کے اکائونٹ میں2011 سے 2014 تک 1.67 ارب روپے جمع کرایا گیا۔رمضان شوگر مل کے کلرک غلام شکور کے اکائونٹ میں 2011 سے 2014 تک 1.57 ارب روپے جمع کرائے گئے، رمضان شوگر ملز کے اکائونٹس کلرک خضر حیات کے اکائونٹ میں 2010 سے 2014 تک 1.42 ارب روپے جمع کرائے گئے، رمضان شوگر ملز کے کلرک اقرار حسین کے اکائونٹ میں 2012 سے 2015 تک 1.18 ارب روپے جمع کرائے گئے،اسی شوگر مل کے ایک اور کلرک محمد انور کے اکائونٹ میں 2011 سے 2015 تک 88 کروڑ روپے جمع کرائے گئے، پھر ان کے سیلز منیجر توقیر الدین اسلم ان کے اکائونٹ میں 56 کروڑ روپے جمع کرائے گئے، شریف گروپ کے ڈیٹا اینٹری آپریٹر تنویر الحق کے اکائونٹ میں 2012 سے 2013 تک 51 کروڑ روپے جمع کرائے گئے۔شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ رمضان شوگر مل کے ایک اور اکائونٹ کلرک
کاشف مجید کے اکائونٹ میں 46 کروڑ روپے جمع کرائے گئے اور رمضان شوگر مل کے چپڑاسی گلزار احمد خان اس کے اکائونٹ میں 2012 سے 2017 تک 42 کروڑ روپے جمع کرائے اور یہ اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ یہ ناصرف ان کی مل میں چپڑاسی تھا بلکہ 2015 میں فوت بھی ہو گیا تھا، لیکن اس کے فوت ہونے کے باوجود یہ اکائونٹ چلایا جاتا رہا، اس میں پیسے جمع ہوتے رہے اور نکلوائے جاتے رہے۔اس کے ساتھ یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی اور بینکنگ نظام پر کڑی نظر رکھنے کے لیے بنائے گئے قوانین کی شدید مخالفت کیوں کی گئی کیونکہ ان دنوں ممکن تھا کہ بینک کے ساتھ ایک مرے ہوئے شخص کا بھی اکائونٹ چلا لیں۔آخر میں ایک شخص مسرور انور ہے جو نیب کی تحویل میں ہے، یہ ان کا بااعتماد کیش بوائے تھا، اس کے نام پر بھی ایک فرنٹ اکائونٹ کھولا گیا جس میں 23 کروڑ روپے جمع کرائے، ان تمام کم تنخواہ والے ملازمین کو ذاتی طور پر سلمان شہباز اور نیب کی حراست میں موجود چیف فنانشل آفیسر محمد عثمان چلاتے تھے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ دونوں ہی کاموں میں طریقہ واردات ایک جیسا تھا جس کے تحت یہ ان کے نام کے اکائونٹ کھول کر ان سے چیک بک لے لیتے تھے اور یہی اسے چلاتے تھے اور اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ یہ 22 ارب روپے کاروبار کے پیسے نہیں تھے، یہ چینی کے پیسے نہیں تھے، ان اکائونٹس کا فرانزک کیا گیا ہے اور اس میں سے صرف 3 ارب روپے کا شاید شوگر کے
کاروبار سے کوئی تعلق ہو، بقیہ رقم کا کسی بھی طریقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ پیسے کسی ٹھیکیدار، سیاستدان یا کاروباری شخصیت سے لیے گئے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آپ جرائم پیشہ لوگوں کی سربراہی کرتے تھے، ان کے غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرتے تھے اور پیسے لیتے تھے یا کسی کاروباری شخص کو بلیک میل کر کے پیسے لیتے تھے لیکن ہماری تفتیش میں ایک شخص ایسا بھی آیا جس نے قبول کیا کہ ایک چیک اس نے خود وزیر اعلی ہائوس میں شہباز شریف کو جا کر دیا کیونکہ جب اس چیک کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے اس بارے میں اقرار کیا البتہ اپنے نام کے تحفظ کی وجہ سے وہ اپنا نام منظر عام پر نہیں لانا چاہتا۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بینک ملازمین کو ساتھ ملا کر یکساں بینکنگ کا نظام کھڑا کیا گیا اور وہ یہی ہے کہ قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھنا اور مخصوص بینکوں کی برانچوں کے ساتھ مل کر یہ نیٹ ورک بنانا ہے کیونکہ جب آپ غلط طریقوں سے کمائی گئی رقم کو گھماتے ہیں تو آپ بلیک کے پیسے کو وائٹ کر رہے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 7 ارب روپے 2010 سے 2018 تک ان کمپنیوں میں ڈالے گئے جو چھ جعلی کمپنیاں ہیں، اتنی جعلسازی ہوئی ہے کہ نہ ہی یہ کمپنیاں سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹر ہیں نہ ہی یہ ایف بی آر سے رجسٹر ہیں، صرف لیٹر ہیڈ پر ان کمپنیوں کے اکائونٹس کھل جاتے ہیں اور پیسہ خوردبرد کر کے ان اکائونٹس کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بینک سے ہر ٹرانزیکشن 20 لاکھ
سے کم کی ہوئی کیونکہ اسٹیٹ بینک کے تحت اس سے زائد کی ٹرانزیکشن کی رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور انتہائی منظم طریقے سے انجام دی گئی۔انہوں نے کہا کہ یہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کا احوال ہے اور وہ اس وقت میں نیب کی تفتیش میں انتہائی اضطراب کی حالت میں ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب بھتیجی نے ان کی جماعت ہتھیا لی حالانکہ آپ اتنے عرصے سے کوشش کر رہے تھے۔انہوں نے شہباز شریف سے تین ہیںکیا آپ مسرور انور اور شعیب قمر کو جنہیں جانتے، یہ دونوں کیش بوائز نیب کی حراست میں ہیں اور ان کے ہاتھوں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔انہوں نے شہباز شریف سے دوسرا سوال کیا کہ آپ اپنا دور یاد کریں آپ اپنے آپ کو خادم اعلی کہتے تھے تو کیا آپ کو اپنے خاندان کا نہیں پتا، اپنے کاروبار کا نہیں پتا، آپ کے اکائونٹ میں کون اور کیوں پیسے جمع کرا جاتا ہے، جب آپ نے اپنی زوجات کے لیے مکان، دکان اور گاڑی لینی ہوتی تھیں تو کہاں سے پیسے آ جاتے تھے، کیا آپ کو ان چیزوں کا علم نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ نے لندن میں چار فلیٹ کیسے بنائے، ابھی تک آپ اس کا جواب نہیں دے سکے، آپ نے خود کہا کہ آپ کے کوئی ذرائع آمدن نہیں ہیں تو پھر آپ نے یہ فلیٹ کیسے بنائے؟۔انہوں نے کہا کہ میں آج سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ کو نہیں پتا کہ لندن میں درجن سے زائد آپ کے اہل خانہ اپنا گزر بسر کن پیسوں سے کر رہے ہیں، ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں، وہ لندن میں جس مکان میں
رہ رہے ہیں اس کا کرایہ کہاں سے دیتے ہیں، اگر کرایہ نہیں دیتے تو ان مکانات و محلات کی ملکیت کس کی ہے۔یہ اتنے عرصے سے لندن میں مقیم کیسے ہیں، اگر آپ وزٹ ویزے پر ہیں تو زیادہ سے زیادہ قیام کی مدت 180 دن ہوتی ہے، 6 ماہ سے زیادہ آپ وزٹ ویزے پر نہیں رہ سکتے، شہباز شریف صاحب کیا آپ کا سارا خاندان برطانیہ کی شہریت حاصل کر چکا ہے؟ کیونکہ اور تو کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ کا خاندان وہاں کس قانونی حیثیت میں رہ رہا ہے یا آپ کے خاندان سے وہاں کی حکومتیں کوئی خاص رویہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی احتجاج یا سیاسی چیز کو نہیں روکنا چاہتے، بطور مہذب معاشرہ آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کا آزادی حق رائے سلب ہو لیکن اس کے لیے سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے جلسے کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ مرض کی کیا صورتحال ہے کیونکہ جلسے میں گرد و نواح کے لوگ بھی آئیں گے لہٰذایہ دیکھنا ہو گا کہ اس سے وبا ء کا پھیلا ئوہوتا ہے اور اگر ہو گا تو پنجاب حکومت کو لاک ڈائون کی طرف جانا پڑے گا، آپ کو ایریاز کے لاک ڈائون کرنا پڑیں گے اور آنے والے دنوں میں اگر کوئی ہاٹ اسپاٹ بنتے ہیں تو پنجاب میں بھی اسمارٹ لاک ڈائون ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ آج بھی قوم کوگمراہ کرنیکی کوشش کرتے ہیں، عدالت میں چائنا کے حبیب جالب نظرآتے ہیں، شہبازشریف اورخاندان کی مزید چیزیں شیئرکرنا چاہتا ہوں، کاروبارکے بھیس میں کک بیکس،کرپشن وصولی کی جاتی
تھی، ان چیزوں کے واضح ثبوت ہمارے پاس موجودہیں۔انہوں نے کہا کہ شواہد سامنے آنے سے یہ لوگ جھنجھلائے ہوئے ہیں، کرتوت ان کے پکڑے جارہے ہیں، بھیس بدلنے کا الزام مجھ پرلگارہے ہیں، العربیہ اور رمضان شوگرملزکی 10سالوں پرمحیط چیزوں کاجائزہ لیاگیا تو پتہ چلا ملازمین کے بے نامی اکائونٹس میں اربوں کی ٹرانزیکشن ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ انھوں نے کہا کہ ابھی تو دروازے کھلے ہیں فرانزک سے جو سامنے آئے گا، وہ ان کو پتہ ہے، شہباز شریف کے پاس وقت بہت ہے، سوالات کیے جوابات نہیں ملے۔ الفخری ٹریڈرزچنیوٹ کے تاجرکینام پرکھولی گئی ، 2.8ارب الفخری ٹریڈرزکے اکانٹ میں آئے، شہبازشریف لانگ بوٹ پہن کرایک ایک چپے کا جائزہ لیتے تھے ، کیا ان کو اپنے اکائونٹس کا نہیں پتہ تھا کہ کیسے پیسے آجاتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جلسہ کریں تو اپنے خرچے پر کریں ، کارکنوں کی پیسے دینے کی ڈیوٹی لگا دی ہے، حکومت پنجاب نے عوامی اجتماع سے متعلق ایس اوپی جاری کیے ، کھلی جگہ پرجلسہ کریں بے شک لاکھوں لوگ لے آئیں، ان کی خواہش تھی کہ تنگ جگہ پرجلسہ کریں تاکہ لوگ زیادہ نظر آئیں۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں