مسلم لیگ ن نے ایک حلقے میں ڈھائی ارب کیسے خرچ کیئے؟ انکوائری شروع، کیس کہاں بھیجا جائے گا؟ فیصلہ کر لیا گیا

لاہور (پی این آئی)مسلم لیگ ن نے ایک حلقے میں ڈھائی ارب کیسے خرچ کیئے؟ انکوائری شروع، کیس کہاں بھیجا جائے گا؟ فیصلہ کر لیا گیا، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے 2017 میں لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں دھاندلی کرنے کیلئے خلاف

قانون ڈھائی ارب روپے ترقیاقی کاموں پر خرچ کیے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں مریم نواز اور اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومتی مشینری نے این اے 120 کے انتخاب میں دھاندلی کے لیے منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے لیے لاہور میں ٹریفک انجینیئرنگ اینڈ ٹرانسپورٹ پلاننگ ایجنسی (ٹیپا) کا انتخاب کیا گیا جس کا کام ٹریفک کا کام، سگنلز کی تزئین و آرائش اور سڑکوں کی مرمت کرنا ہے۔ ڈی سی لاہور کا دفتر استعمال کرتے ہوئے ٹیپا کی ایجنسی کا استعمال کیا گیا۔ این اے 120 کے اندر ڈھائی ارب روپے کے لگ بھگ ترقی کے نام پر خرچ کیا گیا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ سراسر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے لیے جاری کیے گئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ آج کل ووٹ کو عزت دو کا نعرہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں کیا گل کھلائے گئے۔ چھانگا مانگا کی سیاست کرنے والوں نے دھاندلی کا منصوبہ بنایا۔ شریف خاندان نے ہمیشہ چھانگا مانگا کی سیاست کو فروغ دیا۔ اس وقت منصوبے کے تحت تمام کام عملی طور پر کیا گیا اور پیسہ گلی محلوں، ڈسپنسریوں پر خرچ کیا گیا اور نقد رقم بھی دی گئی اور اس کے لیے ٹیپا کا ادارہ استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ پیسہ خرچ نہیں ہوسکتا تھا۔ اشتہار، ٹینڈر اور کسی ٹھیکیدار کو کام کرنے کا حکم بھی نہیں دے سکتے تھے تو ایسے وفاقی حکومت کی جانب سے پنجاب میں ملی بھگت سے وزیراعظم کے خصوصی پروگرام کے تحت پیسہ مختص کیا گیا۔ فواد حسن فواد نے ان سکیموں کے لیے پرائم منسٹر سسٹینبل فنڈ سے پہلے 505 ملین روپے اور پھر 2 ہزار ملین یعنی ڈھائی ارب روپے مختص کیے۔ عملی طور پر سارا کام اور پیسے کی ترسیل اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں کی گئی جبکہ ٹینڈر اور کام کا حکم جنوری 2018 میں جاری کیا گیا۔ الیکشن میں دھاندلی بھی کرنی تھی اور پکڑے بھی نہیں جانا تھا جس کے لیے کام پہلے کیا گیا جبکہ پیسے، ٹینڈر اور کام شروع کرنے کے احکامات بعد میں دیئے گئے۔ ٹیپا کے ذریعے کام کرانا بھی قانون کی خلاف ورزی تھی جس کی تفتیش پنجاب کے انسداد کرپشن کے ادارے نے کی اور ایک انجینیئر اس وقت بھی نیب کی حراست میں ہے اور ان کے انجینیئرز نے اعتراف کیا ہے انتخاب کے دوران کام کیا ہے جو واضح طور پر قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اپنے الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیسپاک کے انجینیئر، سب انجیئینرز اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے اعترافی بیانات دیئے ہیں اور کہتے ہیں کہ حلقہ 120 میں انتخاب کے دوران مریم نواز نے وفاقی حکومت سے فنڈز کا انتظام کیا اور بعدازاں جاتی امرا میں چیئرمین ایل ڈی اے اور چیئرمین ٹیپا کے ساتھ ان فنڈز کے استعمال کا طریقہ کار وضع کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز کس حیثیت سے یہ کررہی تھیں اور کس پیرائے میں سرکاری افسروں کو جاتی امرا میں بلایا جاتا ہے اور سرکاری فنڈز استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ انہوں نے انجینئرز کے بیان پڑھ کر سنایا کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایم پی ایز کے ساتھ رابطہ کرکے تمام ترقیاتی کام انتخاب کے دن تک مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ مریم نواز نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ملکر یہ منصوبہ بنایا۔ یہ الیکشن میں دھاندلی کے ماہر ہیں۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی ماجد ظہور اور بلال یاسین کا دفتر میں بیٹھ کر پورے انتخاب میں دھاندلی کی گئی اور وہیں سے پیسے تقسیم کیے گئے۔ صوبائی انسداد کرپشن کے محکمے نے اس وقت کے ٹیلی فون، تصاویر سمیت دیگر تمام ثبوت کا فرانزک کرایا ہے۔ یہ ایک بڑا کیس ہے اس لیے کیس انسداد کرپشن کے صوبائی محکمے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوا رہے ہیں اور سرکار کی جانب سے الیکشن کمشن کو ایک ریفرنس بھی بھیج رہے ہیں۔ لیکن یہ چیزیں ریکارڈ پر آنا ضروری ہیں۔ اس انتخاب کا وقت تو چلا گیا۔ اس موقع پر یاسمین راشد نے کہا کہ 2017 میں انتخاب کے دوران 32 پٹیشن جمع کرائی تھیں اور ٹیپا کے دفتر کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔ ٹیپا سے مطالبہ کیا تھا کہ گرانٹ کی مد میں جو 2 ارب روپے آئے ہیں کس طرح خرچ ہوئے ہیں اس کا جواب دیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں