لاہور (آئی این پی) مسلم لیگ (ن )کی نائب صدر مریم نواز نے کہاہے کہ نواز شریف کا بیانیہ قائداعظم کا بیانیہ ہے ،غداری کا پرچہ کاٹنے کی اجازت وزیراعظم آفس سے لی گئی، مریم نوازکو خاموش کرانے والے خود خاموش ہونگے، میرا نام تک نہیں لیا جاتا تھا، لگتا تھا میرے کچھ کہنے سے والد پر سختی نہ آئے، میں اپنی
والدہ کو تو کھو چکی تھی، میں اپنے والد کو مزید پریشان ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی، یہی میری خاموشی کی وجہ تھی، ہمارا مقابلہ کم ظرف لوگوں سے ہے، میاں صاحب پر قوم کی بھی ذمہ داری ہے، رات کے وقت دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ آپ اسپتال چلیں، میاں صاحب نے رات کے وقت اسپتال جانے سے انکار کیا، ڈاکٹرز جھوٹ نہیں بولتے، جو تکلیف تھی بتادی، انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب سیاسی طور پر خطرہ بن سکتے ہیں، میاں صاحب کا علاج پاکستان میں نہیں تھا، ہارٹ سرجری کے بعد میاں صاحب ضرور واپس آئیں گے ،محمد زبیر کے ساتھ 40 سالہ پرانے تعلقات ہیں، سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر پاکستان کے عوام ہیں، میاں صاحب کا بیانیہ بالکل واضح ہے، میاں صاحب کا بیانیہ اداروں کیخلاف نہیں، میاں صاحب کہتے ہیں ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام رہ کر کام کرنا چاہئے۔ پیر کو مسلم لیگ (ن )کی نائب صدر مریم نواز نے نجی ٹی وی کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ میڈیا پر تو میرا نام لینے کی اجازت بھی نہیں تھی،میرے والد کو جب باہر بھیج دیا گیا تو مجھے خوف تھا کہ میرے بولنے کیوجہ سے میرے والد کو کوئی مشکل نہ پیش آجائے اسی لیے میں خاموش رہی ،میاں نواز شریف کی زندگی کو ابھی بھی خطرات لاحق ہیں لیکن اب پہلے سے بہتر ہیں اسی لیے آپ مجھے اب بات کرتا دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ڈیل ہوتی تو اس نہج پر معاملات نہ آتے میاں نواز شریف کو باہر بھیجنا انکی اپنی مجبوری بن گئی تھی،میاں نواز شریف کو اس حکومت نے ہمدردی میں باہر نہیں بھیجا بالکہ اپنے آپکو بچانے کیلئے بھیجا کیونکہ انکو پتہ تھا کہ اگر میاں صاحب کو کوئی خطرہ لاحق ہوگیا تو یہ بچ نہیں پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال سرکاری ڈاکٹرز کا بورڈ سرکاری ملازم انکی ہیلتھ منسٹر یاسمین راشد لیبارٹریاں بھی انکی رزلٹس بھی انکے تو پھر انکو بھیجنا انکی مجبوری بن گیا، میاں نواز شریف کی جب جیل میں طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو انکے ہاتھ پیر پھول گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب میاں نواز شریف لندن گئے تو صبح شام ہسپتال جاتے تھے اسکے لیے ہسپتال میں داخلہ ضروری نہیں تھا جب انکی ہارٹ سرجری ہوگی تو وہ داخل بھی ہوجائینگے،ہر مشکل کے باوجود کارکنان اور لیڈران کا پارٹی کیساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنا مسلم لیگ کا 72 سالہ کلچر تبدیل ہوگیا ہے، ن لیگ میں کوئی تقسیم نہیں سولین بالادستی کی بات ن لیگ کا ہر کارکن اور لیڈر کرتا ہے،شہبازشریف اپنی رائے ضرور دیتے ہیں لیکن جب میاں نواز شریف کا فیصلہ آجائے تو پھر وہ اس پر دل سے عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف میرے والد کی جگہ ہیں اور میں انکو اپنے والد سے علیحدہ نہیں دیکھتی دونوں بھائی ایک ہیں،تاریخ کا سبق یہ ہے کہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے،مشرف نے بھی بڑی کوششیں کیں لیکن ناکام ہوا ، شریف ہمیشہ سے ایک صفحے پر تھے اور رہینگے،اگر ن لیگ کو کوئی آشیر باد ہوتی تو میں کوئی اس جدوجہد میں جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو پتہ ہے کونسی بات کب کرنی ہے وہ وقت سے پہلے کوئی بات نہیں کرینگے۔مریم نواز نے عویٰ کرتے کہا ہے کہ حکومت جنوری سے پہلے چلی جائے گی، میرے والد کے بیانیے کو غلط کہنے والے اپنا معائنہ کرائیں :ہمارا مقابلہ کم ظرف لوگوں سے ہے ،لندن میں گھر پر میاں صاحب کا چیک اپ ہوتا رہتا ہے ۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی میاں صاحب واپس آئیں گے ہمارا مقابلہ جن سے ہے ان کے لئے رشتوں کی اہمیت نہیں وہ صرف انتقام کے لئے اندھے ہیں ،میاں صاحب صرف ایک والد ہی نہیں ان پر قوم کی ذمہ داری بھی ہے ۔ نواز شریف کا بیانیہ واضح ہے وہ صرف آئین و قانون کی بات کرتے ہیں ،حتمی طور پر بات پاکستان کی عوام سے ہوگی ۔ عوام کاحق ہے کہ انہیں پتا لگے کہ کیا ہو رہا ہے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عوام ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کی سرجری ہو گی۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں