کراچی (این این آئی) عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے انصاف لائیرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی دو سالہ کارکردگی کے بارے میں ایک لفظ بولنا گوارہ نہیںکیا، انتخابات میں عوام سے جو بلند وبانگ دعوے کئے تھے ان پر عمل درآمد کیلئے ایک جملہ ادا نہیں کیا۔
وزیراعظم اپنی تقریر سے جواہداف حاصل کرنا چاہتے تھے، نتائج اس کے بلکل برعکس نکلے ہیں، وزیراعظم فی الوقت اس پوزیشن میں نہیں کہ ملک کی کسی بھی بار ایسو سی ایشن سے بلا واسطہ خطاب کرسکیں۔وزیراعظم نے اسلام آباد میں اجلاس منعقد کراکرلائیرز فورم کی بیساکھیوں کا سہار ا لینے کی کوشش کی ہے۔ان کی ساری تقریرحزب اختلاف کی تنقید پرمبنی رہی،ماناحزب اختلاف کا وہ کردارنہیں رہا ہے جواچھی سیاسی پارٹیوں کا ہوا کرتا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کی حکومت کو دوسال مکمل ہوگئے،اس عرصے میں آپ نے کیا کیا، آپ نے دوسال کے عرصے میں عوام کو مہنگائی، بیروزگاری کے سوا ئے کچھ نہیں دیا، لوگ بھیک مانگنے اور خودکشی کرنے پرمجبور ہوگئے، معیشت کا بیڑا غرق ہے۔ بیرونی ممالک سے جو اشیاء درآمد ہوتی ہیں ان کا تذکرہ کرنا ہی بے سود ہے کیونکہ اس حکومت نے ملکی معیشت کے ساتھ وہ کیا ہے جو دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ ذرعی پیداوار کا بیڑا غرق کردیا، کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت نہیں مل رہی، لیکن وہ ہی چیزجب صارف کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت تین چار گنا ہو جاتی ہے۔سبزی اور پھل عوام کی دسترس سے دور ہیں، دس روپے قیت میں ملنے والا ٹماٹر دو سو روپے میں فروخت ہورہا ہے، مارکیٹ میں کوئی سبزی ایسی نہیں جو عام آدمی باآسانی خرید سکے۔انہوں نے کہا ہے ان ساری چیزوں کا علاج کرنے کے کیلئے انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں مارکیٹ کمیٹیاں قائم تھیں جن میں کسان،تاجراور صارف کے نمائندے شامل ہوتے تھے۔ملک میں اگر اس طرح کی کمیٹیاں قائم اور مہنگائی پر کڑی نظررکھی جاتی تو عوام سے کئی کئی گنا قیمتیں وصول کرکے انکا خون چوسا جارہا ہے تو یہ نوبت نہیں آتی۔انہوں نے کہا کہ گندم کی فصل ابھی پوری طرح کٹی نہیں ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی۔بھارت اور افغانستان گندم بھیجنا شروع کردی گئی کیوں؟ ان تمام چیزوں کا سدباب پہلے ہونا چاہئے تھا جہاں جہاں کوتاہیاں تھی ان کو دور کرنا چاہئے تھا۔گندم، چاول یاچینی انکی خریداری کی ذمہ داری سرکار کی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کاروباری افراد وہاں تک پہنچیں سرکارکو سب سے پہلے گندم خریدنے اور اس کی قیمت کا تعین کرنا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا نتیجے کے طور پرگندم کی درآمد ]پر مجبور ہوئے اور قیمتی سرمایہ ضائع ہوا۔چینی کا بھی یہی معاملہ تھا چینی گندم کے طریقے سے درآمدکی گئی، وزیراعظم کی کابینہ میں شامل بڑے بڑے شوگر مافیا کے سرغنہ جہانگیر ترین لندن کی ہوائوں کے مزے لے رہے ہیں انہیں مافیاز کے سبب پچپن روپے کلو فروخت ہونے والی چینی عوام کو سوروپے سے زائد میں خریدنے پرمجبور ہیں، شوگرمل مالکان جو ہفتوں کیا فیکٹری چلانے میں مہینے لگادیا کرتے تھے انہوںوقت سے پہلے فیکٹری میں شوگر بنانا شروع کردی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کس طرح استعفادہ حاصل کیا جائے،ظاہر ہے چینی کی پیدوار میں اضافے سے منافعے میں مل مالکان کا بھی حصہ بن جائیگا۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں