اسلام آباد(پی این آئی)سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔خیر بات ہو رہی تھی نواز شریف کی لندن میں موجود پاکستانی صحافیوں سے ہونی والی گفتگو کی‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صحافی بھی مزاحمت کریں اور دو تین ماہ جیل بیٹھنا پڑے
تو خیر ہے۔12 اکتوبر 1999 کو جب وزیراعظم نوازشریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر دیا تھا تو اس کے کچھ دیر فوجی دستوں نے وزیراعظم ہائوس اور پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس دوران تین جنرلز‘ جنرل محمود، جنرل جان اورکزئی اور جنرل عزیز وزیر اعظم ہائوس میں نواز شریف کو قائل کر رہے تھے کہ وہ جنرل مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں اور استعفا دے دیں؛ تاہم نوازشریف راضی نہیں ہوئے۔ اس پر انہیں باقاعدہ گرفتار کرکے لے جایا گیا۔اس سے پہلے نواز شریف نے جب جنرل مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو ان کی کوشش تھی کہ فوری طور پر اسے پی ٹی وی پر چلایا جائے۔ اس وقت پرویز رشید وزیر جبکہ یوسف بیگ مرزا پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے۔ اب پی ٹی وی والوں نے دو تین بار تو یہ خبر چلا دی کہ جنرل مشرف کو برطرف کرکے ان کی جگہ جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا آرمی چیف لگا دیا گیا ہے‘ لیکن وزیر اعظم ہائوس سے اصرار ہو رہا تھا کہ یہ خبر بار بار چلائی جائے۔ اس دوران آرمی کے دستے پی ٹی وی کی عمارت کے اندر داخل ہوگئے تھے اور انہوں نے پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران وزیر اعظم ہائوس سے حسین نواز کا بار بار یوسف بیگ مرزا کو فون آرہا تھا کہ آپ لوگوں نے جنرل مشرف کی برطرفی کی خبر چلانا کیوں روک دی ہے۔ وہ سب لوگ اس وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے وزیراعظم ہائوس میں خبریں دیکھ رہے تھے۔ اس پر یوسف بیگ مرزا نے حسین نواز کو بتایا کہ نیوز روم پر اب فوجی دستوں کا کنٹرول ہے۔ اس پر حسین نواز نے کہا: جناب پھر کیا ہوا‘ آپ ایم ڈی ہیں‘ خبر چلوائیں۔ اس پر یوسف بیگ مرزا نے کہا: جناب‘ ان کے پاس بندوقیں ہیں اور وہ کسی کو قریب نہیں آنے دے رہے۔ اس پر حسین نواز نے ایک تاریخی فقرہ یوسف بیگ مرزا کو کہا ”بیگ صاحب یہ شہادت کا وقت ہے‘ آپ ان سے لڑ جائیں‘ کیا ہو جائے گا اگر وہ گولی مار دیں گے‘ آپ شہادت کے رتبے پر فائز ہوں گے‘‘۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں