لاہور (پی این آئی ) 5سال میں 1258 ارب روپے کے ٹیکس کی ہیرا پھیری کی گئی۔ حکومتی اداروں کی معاونت سے ٹیکس گزشتہ 5سال میں چوری کیا گیا، پشاور میں ٹائر کی دکان سے 41ارب کی فرضی خریداری، جعلی شناختی کارڈز استعمال ہوئے ’پرال‘ کی ملی بھگت ، ٹیکس لینے اور دینے والے بھی شامل ،اہم انکشافات۔ نجی ٹی دنیا نیوز کے مطابق جعل سازی سے
کاروباری منافع کو اخراجات اور نقصانات میں تبدیل کیا گیا ۔ اربوں روپے کی ود ہولڈنگ ٹیکس میں چوری ہوتی ہے ، اس میں بہت اہم لوگ بھی شامل ہیں،پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے، جس کی وجہ سے جی ڈی پی ریٹ پوری دنیا کے حساب سے کم ترین سطح پر ہے ۔ہماری معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ٹیکس چوری عام ہے ۔ٹیکس چوری میں حکومتی ادارے بھی معاونت فراہم کرتے ہیں ۔ٹیکس چوری کا نیٹ ورک بڑا وسیع ہے ۔ نجی ٹی وی پروگرام میں کامران خان نے کہا کہ یہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔5 ایف بی آر چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں ۔اصلاحات کے عمل کو بہت تیزی سے آگے تو بڑھایا جا رہا ہے لیکن مشکلات بہت زیادہ ہیں ۔ٹیکس ادائیگی میں ہم بہت پیچھے ہیں 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف 26 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں ۔ اس طرح 1 فیصد سے بھی کم پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں ۔ 5 سال میں سالانہ 220 ارب روپے سے 340 ارب روپے تک ٹیکس ادائیگی میں گھپلا ہوا ۔ غیر قانونی دھندے میں ایف بی آر والے پوری طرح ملے ہوتے ہیں۔ اربوں روپے کی ود ہولڈنگ ٹیکس میں چوری ہوتی ہے ، اس میں بہت اہم لوگ بھی شامل ہیں ۔ جعلی شناختی کارڈ پر جعلی این ٹی این نمبر جاری کیے جاتے ہیں۔ ٹیکس چوری ایف بی آر کے ٹیکس وصولی سسٹم ‘‘پرال ’’ کی ملی بھگت سے ہوئی۔ میزبان کے مطابق تشویش کا یہ سب سے اہم پہلو ہے ۔ پرال کا ٹیکس چوری کا نظام پاکستان کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچاتا ہے ۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹرنل آڈٹ کی رپورٹ کے مطابق 4193 ارب روپے کی قابل ٹیکس آمدنی بڑے پیمانے پر سامان کی خریداری ، نقصانات اور اخراجات کے طور پر پیش کی گئی۔ 2015 ء سے
2017 ء تک 2824 ارب روپے کی انکم خفیہ رکھی گئی۔ اس آمدنی پر 30 فیصد کے حساب سے 847 ارب روپے کے ٹیکس چوری کیے گئے ۔ 2018 ء اور 2019 ء میں تحریک انصاف کی حکومت میں 1368 ارب روپے کی انکم چھپا کر 410 ارب روپے کے ٹیکس گھپلے کیے گئے ۔ اس میں ملو ث لوگ جعلی شناختی کارڈ اور جعلی این ٹی این نمبر دکھاتے رہے ۔ پشاور کی ایک ٹائر کی
دکان سے جعلی شناختی کارڈ پر 5 سال میں 41 ارب روپے کی فرضی خریداری کی گئی۔ آمدن کو چھپا کر خرچے بہت زیادہ دکھائے گئے ۔پرال کے حکام نے اس پر آنکھیں بند رکھیں ۔ ایف بی آر نے ٹیکس وصولی اور ٹیکس فراڈ روکنے کے لیے پرال کا سسٹم تیار کیا تھا ۔ پرال کا سسٹم پاکستان ریونیو آٹو میشن لمیٹڈ نے بنا یا تھا۔ 4193 ارب روپے کی انکم کو اخراجات میں بدلنے کے لیے
اس پر 132 ارب روپے ودہولڈنگ ٹیکس ظاہر کیا گیا ۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر محصولات ہارون اختر نے کہا کہ ٹیکس میں گھپلا صرف ٹیکس لینے والوں کی جانب سے ہی نہیں ہوتا بلکہ ٹیکس دینے والے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور تھرڈ پارٹی انویسٹی گیشن ہونی چاہیے ، ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے ۔ ہمارے دور میں بھی یہ
چوری موجود تھی، ہم اس کے لیے ایک ایکٹ ‘‘پروبیشن آف بے نامی اکاؤنٹ ایکٹ’’ لے کر آئے تھے ، کیوں کہ چوری کیا گیا پیسہ کہیں نہ کہیں تو جاناہے ۔ ہنڈی ، منی لانڈرنگ اور ریئل سٹیٹ والوں کا گھیرا تنگ کیا گیا ۔ جیولری، پرائز بانڈز میں انویسٹ کرنے والوں کا گھیرا تنگ کیا گیا۔ ٹیکس دینے والا جب ٹیکس افسر کے پاس یہ معاملہ لے کر جاتا ہے اور اسے شامل کر لیتا ہے تو یہ اس کے لیے
راستہ بن جاتا ہے کہ میں آئندہ بھی ایسے کرتا رہوں گا۔ این ٹی این نمبر جاری کرنے کا نظام آٹو میٹک بنایا گیا۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر ٹیکس امور علی رحیم نے کہا کہ اس دھندے میں تین پارٹیا ں ذمہ دار ہوتی ہیں ۔ اول کرنے والا،ایڈوائزر اور ٹیکس اتھارٹی ۔تینوں کے شامل ہونے سے ہی یہ ممکن بنتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شوگر ملز والے ایک مقام طے کر لیتے ہیں ،8 فیصد،9 فیصد یا 7 فیصد ، اب جو بھی ہو وہ اس کے آگے پیچھے ہی ممکن بنا لیتے ہیں۔
ایک فیصد بھی اوپر نیچے ہونے سے کروڑوں کا فرق پڑ جاتا ہے ۔ اگر کرنے والے خود چیک کریں گے تو وہ خود کیا نکالیں گے ۔ ایف بی آر کی اپنی ٹیم انویسٹی گیشن کر کے رپورٹ براہ راست ایف بی آر کو دے اور وہ خود ایکشن لے ۔ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے کاغذی کارروائی کے ساتھ ساتھ عملی ایکشن بھی لیا جا نا ضروری ہے ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں