اسلام آباد (پی این آئی )میری دعا ہے کہ اِن 73برسوں میں عمران خان اس ملک کے پہلے وزیراعظم بنیں جو اپنی میعاد پوری کریں،طرز حکمرانی پر تنقید ہو سکتی ہے مگر اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے طے کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں سویلین بالا دستی کو تسلیم کیا جائے، خود تجربات کرنے چھوڑ دیں۔روزنامہ جنگ میں شائع سینئر صحافی مظہر عباس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔عمران خان خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کی آغوش میں آنکھ کھولی مگر اس وقت ان کی کابینہ میں آمریت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ وہسیاست میں 1995میں آئے جس وقت ملک میں ایک جمہوری حکومت تھی، انہیں شکر گزار ہونا چاہیے، ان سیاستدانوں، کارکنوں، صحافیوں، مزدوروں، کسانوں، وکیلوں کا، جنہوں نے جمہوریت کی خاطر قربانیاں دیں، پھانسی چڑھے، کوڑے کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ چند دن جیل میں رہے، ورنہ یہاں تو جیل میں ڈال کر، شاہی قلعہ میں بند کرکے بھول جاتے تھے، ایوب خان کی تعریف کرتے آپ تھکتے نہیں ہیں، کبھی حسن ناصر کا بھی ذکر ہو جائے جو آمریت کے خلاف پہلا شہید جمہوریت ہے۔ کبھی نظیر عباسی، کا بھی ذکر کردیا کریں، چلیں ان سب کو چھوڑیں، ذوالفقار علی بھٹو پر آ جائیں، آپ نے درست کہا کہ اس نے آمریت کی آغوش میں آنکھ کھولی مگر دو آمروں کے خلاف جدوجہد کی اور ایک کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گیا، اس ملک کا آئین اور ایٹم بم اسی کا مرہونِ منت ہے۔آپ نے کہا کہ کسی کی جرأت نہیں کہ وہ آپ سے استعفیٰ مانگے، خدا کرے ایسا ہی ہو، نواز شریف نے 12اکتوبر 1999کو انکار کیا تو انہیں وزیراعظم ہاؤس سے زبردستی باہر نکال دیا گیا۔ اس دوران جوکچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، کوئی بھی منتخب وزیراعظم یا حکومت ہو اس کی پالیسیوں سے شدید اختلاف کیا جا سکتا ہے اور انہیں گھر بھیجنے کا طریقہ بھی آئین میں درج ہے مگر کسی غیرآئینی اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں