لاہور (پی این آئی )میں کوئی قانونی دلائل نہیں دوں گا، پہلے سب کچھ بتا چکا ہوں ،جتنا عدالت نے ریمانڈ دینا ہے عدالت دیدے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، احتساب عدالت نے شہباز شریف کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں د یتے ہوئے 13 اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم د یدیا ۔ تفصیلات کے مطابق مسلم
لیگ(ن)کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو نیب نے گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ سے عبوری ضمانت خارج ہونے پر آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔ نیب حکام نے شہباز شریف کو ٹھوکر نیاز بیگ کے دفتر منتقل کیا تھا جہاں سے نیب ٹیم سخت سیکیورٹی میں اپوزیشن لیڈر کو لیکر احتساب عدالت پہنچی۔ شہبازشریف کی پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر سخت سیکیورٹی تعینات کی گئی۔ نیب کی ٹیم نے شہبازشریف کو عدالت کے روبرو پیش کیا جہاں جج جواد الحسن نیب ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ناکام ہے، اس کا مقابلہ کریں گے۔ سابق وزیراعلی پنجاب اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے احتساب عدالت میں اپنا مقدمہ خود لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ شہبازشریف نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنا کیس خود لڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحب میرے وکلا نے ہائیکورٹ کو بتایا کہ میرے خلاف نیب کے کسی گواہ نے بیان نہیں دیا، جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو ہم جدہ میں تھے، ہم تینوں بھائیوں اور ایک بہن نے جائیداد کو تقسیم کیا۔ اپوزیشن لیڈر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان آتے ہی میں نے وہ جائیداد اپنے بچوں کے نام کردی، میرے آفس ہولڈر ہونے کی وجہ سے میرے بچوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پنجاب کے کاشتکاروں کا نقصان نہیں ہونے دیا، سرکاری خزانے کا ناجائز استعمال نہیں کیا، میں جانتا ہوں یہ پیسہ غربیوں ، یتیموں ، بیواں اور عام شہریوں کا ہے۔ لیگی صدر کا اپنے دلائل میں کہنا تھاکہ مجھے 2017 میں پنجاب حکومت کے چیف سیکرٹری نے سمری دی، سمری میں کہا گیا کہ پنجاب میں چینی اضافی ہے ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ اچھی بات ہیچینی ایکسپورٹ ہونی چاہیے۔ شہباز شریف نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ میں نے اس وقت حوش وحواس سے فیصلے کیے، میں نے نشے یا بھنگ پی کر فیصلے نہیں کیے۔ اپوزیشن لیڈر کے دلائل پر جج احتساب عدالت نے سوال کیا کہ یہ جو آپ نے مجھے تفصیلات دیں، یہ نیب کو بتائیں؟ اس پر شہباز شریف نے کہا کہ یہ بولتے نہیں، نیب کے تفتشی افسر گھنے بنے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔ دورانِ سماعت عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ تفتیش تو مکمل ہوچکی، اب شہبازشریف کا ریمانڈ کیوں لینا ہے؟ اس پر پراسیکیوٹر عاصم ممتاز نے کہا کہ عدالت کو حقائق سے آگاہ کروں گا۔ نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ کل شہباز شریف سے پوچھا گیا لیکن انہوں نے واضح کیا کہ وہ کچھ نہیں بتائیں گے، ان سے کل گرانڈ آف اریسٹ پر دستخط کروائے گئے۔ تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے کہا کہ میں کوئی جواب نہیں دوں گا، پہلے سب کچھ بتا چکا ہوں۔ دورانِ سماعت جج نے شہباز شریف سے مکالمہ کیا کہ آپ کھڑے کھڑے تھک گئے ہوں گے اس پر اپوزیشن لیڈر کو کرسی دی گئی اور وہ بیٹھ گئے۔ اس موقع پر شہباز شریف نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں کوئی قانونی دلائل نہیں دوں گا، جتنا عدالت نے ریمانڈ دینا ہے عدالت دے دے۔ بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے تھوڑی دیر بعد سناتے ہوئے نیب کی استدعا کو منظور کرلیا۔ عدالت نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو 14 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں دے دیا اور انہیں 13 اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں