لاہور (پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے مجھ پر کرپشن کے الزامات لگائے جن کی تردید ہوئی، ان کے اس عمل سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہوا، ناجائز اور غلط الزامات لگا کر جو حوس بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ
نہیں بجھے گی، میرے مرنے کے بعد بھی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو میری لاش قبر سے نکال کر پول کیساتھ لٹکا دی جائے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں چینی 50 روپے کلو تھی جو آج 100 روپے کلو مل رہی ہے، گندم اور آٹا باآسانی دستیاب تھا لیکن آج آٹا نایاب اور گندم غائب ہے، غریب آدمی کی جیب خالی ہو گئی ہے مگر وہ ڈیزل اور تیل کا انتظام نہیں کر سکتا اور سلیکٹڈ وزیراعظم دن رات ناصرف ان سکینڈلز کو چھپانے میں مصروف ہے بلکہ منی لانڈرنگ اور پی ٹی آئی کیخلاف غیر ملکی اکاؤنٹس کے کیس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، الیکشن کمیشن اور سٹیٹ بینک کے پاس حقائق موجود ہیں اور اگر وہ انہیں سامنے لے آئیں تو عمران خان ایک سیکنڈ بھی وزیراعظم نہیں رہ سکتا، لیکن اس بات کو کئی سال گزر گئے ہیں اور غیر ملکی اکاؤنٹس پر الیکشن کمیشن نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پر ناجائز اور غلط الزامات لگا کر جو انتقام کی حوس بجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ نہیں بجھے گی، نیازی، نیب گٹھ جوڑ نے اس ملک کے اندر غلط مقدمات بنانے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، رانا ثناءاللہ کے بارے میں ہیروئن کا کیس بنایا گیا اور اس سے متعلق ساری قومی جانتی ہے کہ عمران خان نیازی اور اس کے حواری کس ڈھٹائی سے کہتے رہے کہ یہ بالکل سچا کیس ہے لیکن اس کے مقابلے میں علیمہ باجی کے بیرونی ملکی جائیدادوں کے اوپر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں، ان کو ایف بی آر میں پروٹوکول کے ساتھ بلایا جاتا ہے، ان کی جائیدادوں پر ایمنسٹی میں فائدہ لیا لیکن حتیٰ کہ عمران خان بھی ایمنسٹی سے فیض یاب ہوئے، لیکن آج ہم پر الزامات لگاتے ہیں، ہم کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں ناتواں انسان ہیں، لیکن نواز شریف کی لیڈرشپ میں ان کی ٹیم نے دن رات محنت کر کے پاکستان کی تقدیر کو بدلا اور اس ملک کی در و دیوار اوربچہ بچہ اس بات کا گواہ ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مالم جبہ کا کیس کیوں نہیں کھلا، عمران خان نیازی کیخلاف ہیلی کاپٹر انکوائری کا کیا بنا؟ چینی سکینڈل اور گندم سکینڈل اور دوسرے بڑے بڑے سکینڈل جو اس حکومت میں ہوئے، ان کا کیا ہوا؟ کاروباری حضرات کو لاکھ ہراساں
کریں مگر اصل چینی سکینڈل میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ہیں، دونوں کا نام ہی(ع) سے شروع ہوتا ہے، لیکن آج تک ان سے کسی نے نہیں پوچھا، آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور کہتے ہیں کہ فیس نہیں بلکہ کیس دیکھتے ہیں، اگر واقعی فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں تو پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے تھا۔ بلدیہ فیکٹری کا حادثہ ہماری معیشت کیساتھ ہونے جا رہا ہے، اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر اس پر بہتری نہ آئی تو خدانخواستہ پاکستان کی معیشت کو کوئی نہیں بچا سکے گا اور ہم اس پر آواز اٹھاتے رہیں گے، اس کیلئے ہمیں دوبارہ جیل میں جانا پڑا تو یہ کوئی بڑی قیمت نہیں، اس راستے اور گلیوں سے ہم پہلے بھی گزر چکے ہیں، فرق یہ ہے کہ پہلے بیٹیوں کیساتھ نہیں جانا پڑا تھا لیکن آج وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ قوم کی ماؤں اور بیٹیوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے 56 کمپنیوں کی تحقیقات کا کہا تھا لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی وہ کمپنیاں کہاں ہیں؟ یہ سچ ہے کہ ہمارے دور میں اربوں اور کھربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوئی، بجلی کے منصوبے لگے، میٹرو بس اور اورنج لائن کے منصوبے لگے لیکن ان میں ایک دھیلے کی کرپشن کا ثبوت بھی ملا ہے تو بتائیں، میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میرے قبر میں جانے کے بعد بھی میرے خلاف عوامی پیسے میں کرپشن کا ایک دھیلا نکل آئے تو میری لاش کو قبر سے نکال کر کھمبے پر لٹکا دیا جائے، آج ظلم
اور زیادتی اور انتقام کی انتہاءہے، ایف آئی اے اور آبی بہت فعال ہیں، راتوں کو لوگوں کو اٹھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی اور میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں کہ قیامت تک اگر میرے خلاف کرپشن کے ایک دھیلے کا ثبوت بھی لے آئیں تو مجھے معاف نہ کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی قیادت میں پانچ سالوں میں منصوبوں میں نیٹ بچت کی گئی، یعنی سب سے کم بولی دینے والے سے بھی پیسے کم کروائے گئے حالانکہ یہ قانون میں نہیں ہے، میں ادب اور عاجزی سے کہتا ہوں کہ نواز شریف کی قیادت میں اس ٹیم نے پانچ سالوں میں ایک ہزار ارب روپے کی نیٹ بچت کی ہے، میں بہت خطاءکار آدمی ہوں، حضرت قائداعظم بہت جلدی رحلت فرما گئے لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوئی، لیکن ان خطاءکاروں نے ان منصوبوں میں جو نیٹ بچت کی ہے اس کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ عمران خان نے میرے خلاف تین الزامات لگائے، کہا کہ میں نے جاوید صادق نامی فرنٹ مین سے 27 ارب روپے رشوت وصول کی جس پر 2016ءمیں نوٹس دیا لیکن آج تک جواب نہیں دیا، جو وزیراعظم جھوٹ بولتا ہے اور آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتا، وہ خائین نہیں ہے؟ دوسرا الزام یہ لگایا کہ شہباز شریف نے پانامہ میں مجھے 10 ارب روپے رشوت دینے کی پیشکش کی، اس پر بھی میں نے نوٹس دیا، اب تک 66 سماعتیں ہو چکی ہیں اور دو سال گزر چکے ہیں، ان کا وکیل اب بھی کہتا ہے کہ جواب دوں گا، جبکہ سیشن جج کہتے ہیں کہ آخری موقع دے رہا ہوں، دو سال گزر گئے ہیں، وہ الزام کدھر گیا؟ تیسرا الزام لگایا کہ ملتان میٹرو میں چینی کمپنی یادیو سے 17 ملین ڈالر رشوت لی جس پر چینی حکومت نے اس کی فی الفور تردید کی، وفاقی کابینہ عمران خان کی ہدایت پر ڈیلی میل میں چھپنے والے آرٹیکل کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی کہ شہباز شریف کے خلاف کروڑوں روپے کرپشن کی بات کی گئی ہے، اگلے دن چھٹی تھی لیکن اس کے باوجود برطانیہ کی حکومت نے اس کی کھلی تردید کی اور کہا کہ اس میں کوئی سچائی نہیں، میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ جو آدمی سفید جھوٹ بولے، ہمشیرہ کیلئے پروٹوکول کا انتظام کرے، ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھائے،
وہ اس طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر مجھے بدنام کرنے کیساتھ پاکستان کے نام کو بھی بدنام کرتا رہا، عمران خان نے برطانیہ اور چین میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم پاکستان کو بدنام کیا۔ بی آر ٹی پشاور میں چار بسیں جل چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بے پناہ فضل و کرم ہے کہ ایک بھی شخص کو نقصان نہیں پہنچا، لیکن 100 ارب روپے کے منصوبے میں چار بسوں کا جل جانا معنی خیز ہے، ہم نے اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور ملتان کے منصوبے 100 ارب روپے میں لگائے جن کا فاصلہ بھی 70 کلومیٹر تک بنتا ہے لیکن 27 کلومیٹر کی پشاور میٹرو پر 100 ارب روپے لاگت آئی، بدقسمتی ہے کہ وہاں آئے روز بسوں کو آگ لگتی ہے، کروڑوں نہیں اربوں روپے کی کرپشن ہو چکی ہے، یہ میں نہیں آفیشل رپورٹس کہہ رہی ہیں، اس منصوبے کی تاخیر میں کروڑوں ارب روپے اضافی لاگت بھی آئی اور قوم کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ لاہور میٹرو بس کے بارے میں کہتے ہیں کہ چین سے قرض لے کر بنائی گئی تو کیا پشاور میں منصوبہ مفت لگا ہے؟ آپ نے اس سے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرضہ لیا لیکن اس کے باوجود تاخیر ہوئی اور منصوبہ آج بھی اجڑا ہوا ہے، صرف نااہلی کی وجہ سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوا اور یہ اربوں روپے اب غریب کو ہی دینا پڑیں گے لیکن اس بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اونج
میٹرو منصوبے کیخلاف پی ٹی آئی عدالت میں گئی اور عدالت عالیہ نے چھان بین کے بعد 300 صفحے کا فیصلہ لکھا جس میں ایک دھیلے کی کرپشن کی بات نہیں کی جس کے بعد پی ٹی آئی سپریم کورٹ چلی گئی، وہاں بھی آٹھ مہینے لگ گئے جس کے بعد منصوبہ مکمل کرنے کی اجازت ملی، ہم نے دن رات کام کر کے باٹاپور سے لکشمی تک کا منصوبہ مکمل کیا اور باقی کا کام تو معنی ہی نہیں رکھتا تھا لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی منصوبہ مکمل نہیں ہوا اور یہ وقت ضائع کر دیا گیا، چین اور پاکستان کی تاریخ میں آج تک کبھی چینی حکومت نے آفیشل قرضے میں کمی کی بات نہیں ہوئی لیکن ہم نے اصرار کیا اور وہ مان گئے، قوم کی آخری پائی بچانے کیلئے سات مہینے کی تاخیر برداشت کی اور پھر 600 ملین ڈالر یعنی 81 ارب روپے کم کروائے، کوئی قانون مجھے یہ پیسے کم کروانے کیلئے نہیں کہہ سکتا تھا لیکن میں نے پاکستان اور اس منصوبے کو اپنا جانا اور پیسے کم کروائے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ ہم نے سیف سٹی کا منصوبہ 2016ءمیں لگانا شروع کیا تو اس سے چھ سال پہلے 2010ءمیں اسلام آباد میں دو ہزار کیمروں کا منصوبہ 12 ارب روپے میں لگا لیکن ہم نے 2016ءمیں آٹھ ہزار کیمروں کے منصوبے کی بولی طلب کی تو سب سے کم بولی 16 ارب روپے ملی مگر میں دن رات لڑتا رہا اور اسے 12 ارب روپے میں لے کر آیا یعنی مزید چار ارب روپے نیٹ بچت کی، یہ قوم کا درد نہیں تھا تو اور کیا تھا، میں نہ کرتا، مجھے کیا پڑی تھی، یہ تڑپ اللہ تعالیٰ کے کرم سے خطاءکار انسان ہونے کے باوجود تھی اور اللہ نے کرم کیا جس کی وجہ سے میں کامیاب ہوا۔ بجلی کے منصوبوں کا سب سے بڑا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے جو ہر ہفتے میٹنگ کرتے تھے
اس کے بعد شاہد خاقان عباسی کو کریڈٹ جاتا ہے ، ہم نے چار منصوبے لگائے گئے جن میں سے دو وفاق اور دو پنجاب میں لگے جو سی پیک کے علاوہ ہیں اور یہ چاروں منصوبے پاکستان نے اپنی جیت سے لگوائے، ایک معیار تھا، نیپرا کا ٹیرف، کہ کیا قیمت ہو گی اور دوسرا معیار تھا کہ اسی قسم کے ماضی میں جو منصوبے لگے ہیں ان کی کیا قیمت تھی، نیپرا کی جو قیمت ملی اس سے بھی آدھی قیمت پر آئے اور ماضی کے تمام منصوبوں کے مقابلے میں کم قیمت پر آئے۔ گدو پاور پلانٹ ساڑھے 8 لاکھ ڈالر فی میگا واٹ بجلی دیتا ہے اور ہم نے جو منصوبے لگائے وہ چار لاکھ ڈالر فی میگا واٹ بجلی دیتا ہے، ساہیوال کول پاور پراجیکٹ سی پیک کا پراجیکٹ ہے اور جس زمانے میں یہ لگا اس وقت 20,20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی، ہم نے معاہدہ کیا اور چین کی منتیں کیں کہ کسی بھی طرح اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کریں لیکن انہوں نے کہا کہ ہم تین سال سے پہلے نہیں لگا سکتے، پھر ان کی مری میں دعوتیں کی اور بالآخر انہیں 25 دسمبر 2017ءتک یہ منصوبے مکمل کرنے پر رضامند کر لیا، مگر اس کی پہلی ٹربائن مئی 2017ءاور دوسری ٹربائن جون 2017ءمیں چل گئی اور 1300 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گئی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو 225 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں