اسلام آباد (پی این آئی )معروف صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ آئی جی پنجاب کی تبدیلی کیلئے وفاقی حکومت کے ایک مشیر نے پولیس افسران کے انٹرویوز کیے، انہوں نے ایک افسر سے یہ بھی کہا کہ ہم نے ن لیگ کو لاہور میں قابو کرنا ہے۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی سی پی او لاہور نے آئی جی کے بارے میں جو کچھ کہا وہ
واٹس ایپ کے ذریعے ہر بڑے افسر کے پاس گیا، کمانڈ کا سسٹم ہی سیاسی کردیا جائے تو کام نہیں ہوسکتا۔آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی تبدیلی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سی سی پی او لاہور کی تعیناتی آئی جی پنجاب کے علم میں لائے بغیر ہوئی۔ آئی جی پنجاب نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور بتایا کہ ایک ڈسپلن فورس میں آپ کا جونیئر اپنے ٹاپ باس کے خلاف بولے تو پولیس غیر سیاسی نہیں ہوسکتی، یہ بہت ہی افسوسناک ہے کہ اس طریقے سے آئی جی کو ہٹادیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سی سی پی او کی تعیناتی وفاقی حکومت کے کہنے پر ہوئی تھی، کراچی میں بھی کچھ تبدیلیاں ہوں گی، ان کی سیاسی وجوہات ہیں، حکومت سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ آئی جی پنجاب کی تبدیلی سے پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا بھرم دھڑام سے نیچے گرگیا ہے۔انہوں نے نئے تعینات ہونے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بارے میں کہا کہ کچھ ماہ پہلے پولیس افسران کی پرموشنز ہوئیں تو سی سی پی او کو وزیر اعظم نے اپروو نہیں کیا تھا۔ ان کے خلاف رپورٹ ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں پرموٹ نہیں کیا گیا تھا، پولیس بھی فوج کی طرح ایک ڈسپلن ادارہ ہے، اگر فوج میں کوئی کور کمانڈر آرمی چیف کے خلاف بات کردے تو پھر فوج تو ختم ہوجائے گی۔ انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ آپ مدت پوری ہونے سے پہلے کسی کو تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن یہاں ایک ایک محکمے کے 10، 10 سیکرٹری تبدیل کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی جی کی تبدیلی کے پیچھے سیاسی محرکات ہیں۔ یا درہے کہ گزشتہ روز آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا تبادلہ کر کے انکی جگہ انعام غنی کو نیا آئی جی پنجاب لگا دیا گیا تھا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں