آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہیں چاہتے کہ شریف اور زرداری واپس اقتدار میں آئیں چنانچہ عمران خان ہی حکومت میں رہیں گے

اسلام آباد(پی این آئی) پاکستانی اپوزیشن جماعتیں ایک سے زائد بار متحد ہو کر حکومت کے خلاف متحرک ہوئیں لیکن حاصل صفررہا۔ آخر پاکستانی اپوزیشن جماعتیں عمران خان حکومت کے خلاف کچھ کرگزرنے میں ہر بار کیوں ناکام ہو جاتی ہیں؟ پاکستان کے معروف سینئر صحافی طلعت حسین نے گلف نیوز کے لیے لکھے

گئے اپنے آرٹیکل میں اس سوال پر بحث کی ہے۔ طلعت حسین لکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کا سامنا کرنے میں شروع سے تذبذب کا شکار رہی ہیں، وہ حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔اب ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں عمران خان کو حکومت سے نکالنے کے لیے متحدہ ہو رہی ہیں اور ان کے عزائم اور اعلانات اب بھی وہی ہیں جو ہم شروع سے سن سن کر بوریت کا شکار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران چھوٹی بڑی قومی سیاسی جماعتیں، علاقائی اور مذہبی گروپس حکومت گرانے کے لیے ایسے ہی اتحاد بنا چکے ہیں لیکن طاقت کے عارضی مظاہرے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ طلعت حسین لکھتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت عوام عمران حکومت کی ناکامیوں سے سخت نالاں اور مشتعل ہیں۔ عمران حکومت کی معاشی کارکردگی انتہائی ناقص رہی، لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔ اپنے وعدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی عمران حکومت کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے۔ اس کے 1کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر دینے جیسے وعدے اس کے لیے تضحیک کا سبب بن چکے ہیں۔ حکومت کے تمام تر بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود معاشی شرح نمو3فیصد سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اپوزیشن کے فائدے میں جاتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے عوام اس قدر جھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ یہ ٹنڈر باکس پھٹنے کے لیے ایک چنگاری کا منتظر ہے، مگر اس بم کو چنگاری کون دے؟اپوزیشن حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک میں مخمصے کا شکار نظر آتی ہے اور متحدہ اپوزیشن کا خطرہ حکومت کے لیے ایک کھوکھلی دھمکی کے مصداق ہے۔دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سربراہان بہت بڑی مگر متنازعہ احتسابی تحریک کی زد میں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کا جو بھی سرکردہ رہنماءہے وہ بے رحم گرفتاریوں، قید، عدالتی پیشیوں، تفتیش اور رسمی الزامات کی زد میں ہے۔ ان دونوں جماعتوں میں مسلم لیگ ن وزیراعظم عمران خان کا پسندیدہ پنچنگ بیگ ہے کیونکہ اس کا پنجاب میں سیاسی اثرورسوخ بہت زیادہ ہے اور پنجاب میں اثرورسوخ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے قائدین، ان کے بچے اور ان کے قریبی ساتھی کئی طرح کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں چنانچہ وہ سڑکوں پر آنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں اور اس کی بجائے محض پریس کانفرنسوں میں سخت لفظ بولنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے کچھ حاصل ہونا ممکن نہیں۔اپوزیشن جماعتوں کے حکومت کے خلاف جدوجہد میں ناکام ہونے کی ایک وجہ تو یہ تھی تاہم سب سے اہم وجہ فوج کا عمران خان کی دو ٹوک حمایت کرنا ہے۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر شیخ رشید نے اس معاملے کو مزید واضح کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہیں چاہتے کہ شریف اور زرداری واپس اقتدار میں آئیں چنانچہ عمران خان ہی حکومت میں رہیں گے۔ فوج کی طرف سے شیخ رشید کے اس بیان کی تردید سامنے نہیں آئی۔ عمران خان خود بھی فوج کی اس حمایت کو ایک تمغے کی طرح سینے پر سجا کر رکھتے ہیں اور گاہے بیان دیتے رہتے ہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ یہی وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عمران حکومت کے خلاف اپوزیشن کی کوئی بھی کوشش ناکام جاتی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں