پاکستان کا وہ صوبہ جہاں خواتین کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ جبکہ فی میل شرح تعلیم سب سے کم ہے، تشویشناک دعویٰ کر دیا گیا

کوئٹہ (پی این آئی) اراکین بلوچستان اسمبلی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہا ہے کہ اس وقت بلوچستان میں خواتین کی شرح اموات دنیا میں سب سے زیادہ جبکہ فی میل شرح تعلیم سب سے کم ہے، صوبے میں عورتوں، بچوں، نوجوانوں اور بے روزگاروں کے مفادات کو کوئی تحفظ حاصل نہیں، ہر شخص مایوسی کا

شکار ہے، پبلک ڈویلپمنٹ سیکٹر کے لئے صوبے کا ایک سو 10ارب روپے صرف اور صرف تعمیراتی کاموں پر خرچ کئے جارہے ہیں سروس ڈیلیوری پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جارہا ہے جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا، غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کی خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق تجاویز کو شامل کرکے قرار داد بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔ان خیالات کا اظہار اراکین بلوچستان اسمبلی ثناء بلوچ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو، سٹینڈنگ کمیٹی فار وومن کے چیئرمین احمدنواز بلوچ، کوئٹہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ظفر بلوچ اور بلوچستان میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں ہارڈ کے نمائندے ضیاء بلوچ، عورت فاؤنڈیشن کے علاؤ الدین خلجی، آزات فاؤندیشن کے گل خان نصیر، شرکت گاہ کی حمید نور، سپیس کی رضیہ سلطانہ، وتی کی ثمرین، روبینہ شاہ، صوبیہ شیخ، یوتھ ایکٹیویسٹ نمرہ پرکانی، خدمت خلق فاؤنڈیشن کی صائمہ جاوید، معروف شاعرہ جہاں آراء تبسم، ذولیخا ودیگر نے کوئٹہ میں ”سٹیک ہولڈرز آن وومن امپاور منٹ ویتھ پارلیمنٹرینز“ کے نام سے منعقدہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔خواتین کی حقوق کے لئے سرگرم تنظیموں کے نمائندوں نے اجلاس کے دوران اپنی تجاویز اور آراء پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں فی میل شرح تعلیم انتہائی کم ہے بچیوں کی بڑی تعداد سکولوں سے مختلف وجوہات کی بناء پر ڈراپ آؤٹ ہوجاتی ہیں، پرائمری کے بعد بچیوں کے لئے قریب مڈل سکول کی سہولت نہیں ہے انہیں دور دور علاقوں اور شہروں میں جا کر تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا پڑتا ہے انہیں تعلیمی اداروں تک جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں بلکہ سکولوں میں فی میل اساتذہ کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی طالبات تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ جاتی ہیں یا پھر والدین انہیں سکولوں سے نکلوادیتے ہیں۔ گرلز سکولز انتہائی کم ہے حکومت کو چاہیے کہ مزید گرلز سکول قائم کرے اور ساتھ ہی انہیں اپ گریڈ کیا جائے تاکہ بچیوں کا تعلیمی سلسلہ ادھورا نہ چھوڑنا پڑے۔خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول میں بھی انتہائی مشکل کا سامنا ہے نادرا سٹیشنز پر ہفتے میں صرف ایک ہی دن عورتوں کے مختص ہے جبکہ مختلف علاقوں اور اضلاع کے لئے ایک ہی نادرا وین دستیاب ہے جس سے انہیں شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، شناختی نہ ہونے کی وجہ سے بینک خواتین کا کاروبار شروع کرنے کے لئے لون نہیں دیتے، حکومت کو چاہیے کہ ضلع اور تحصیل کی سطح پر نہ صرف نادرا وین کی فراہمی ممکن بنائیں بلکہ یکساں طور پر نادرا سٹیشن میں خواتین کے لئے الگ بندوبست یا پھر الگ نادرا سٹیشن قائم کرے۔اسی طرح صوبے میں کشیدہ کاری کے علاوہ دیگر شعبے حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے آخری سانسیں لی رہی ہیں، حکومتی سطح پر خواتین کو ہنر بنانے کے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ادارے بنانے سے انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن ہنر سکھانے کے لئے طریقہ کار بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خواتین گھر بیٹھ کر کام کریں اور وہ بآسانی گزر بسر کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ خواتین کو انصاف تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ آگاہی اور سہولیات کے فقدان کے باعث زچگی کے دوران خواتین کی بہت بڑی تعداد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مسائل کے حل کے لئے لانگ ٹرم پراسس کی ضرورت ہے۔ صوبے میں خواتین کو

مختلف قسم کے مسائل کا سامناہے اسمبلی میں بلز پیش کئے جاتے ہیں ان پر سیر حاصل بحث کی جاتی ہے مگر انہیں عملی طور پر نافذ نہیں کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک خواتین بااختیار نہیں ہوتی اس قت تک خواتین پر تشدد کے واقعات اور انہیں درپیش مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرنا عبث ہوگا۔ صوبے کی تمام پارٹیوں کو اپنے منشور میں خواتین کے حقوق سے متعلق نکات کو شامل کرنا چاہیے۔ مقررین نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت بھی خواتین اور بچوں کے حقوق سے متعلق 4بلز پینڈنگ میں ہے۔اس موقع پر سٹینڈنگ کمیٹی برائے خواتین کے چیئرمین احمدنواز بلوچ نے کہا کہ ان کے دو سالہ دور میں کسی بھی ادارے کی جانب سے ان کے پاس کوئی بل نہیں آیا ہے، خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق اپنی تجاویز اور بل اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس لے آئیں۔ میٹنگ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ وہ چند دنوں میں صوبائی اسمبلی میں قرار داد لارہے ہیں غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندے اپنی تجاویز کو تحریری شکل دے کر انہیں فراہم کرے تاکہ ان تجاویز کو قرار داد میں شامل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ غیر سرکاری تنظیموں بھی پبلک ڈویلپمنٹ کے لئے ہی کام کررہی ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ تمام شعبوں سے متعلق معلومات اکھٹی کرکے ان کی بہتری کے لئے تجاویز دیں کیونکہ اب آگاہی مہمات سے نکل کر عملی طو ر پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں سول سوسائٹی کے تنظیموں کو اپنے ہی حکومتیں فنڈز کرتی ہیں چونکہ وہ نہ صرف کوتاہیوں کی نشاندہی کراتی ہیں بلکہ معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں مگر پاکستان میں تمام فلاحی اداروں کا انحصار صرف اور صرف بیرونی ڈونرز سے فنڈز پر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ

فلاحی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں کو بھی فنڈز فراہم کی جائے کیونکہ وہ یہاں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔ گلوبل پارٹنر شپ کے تحت بلوچستان میں تعینات اساتذہ کی مستقلی اور انہیں تنخواہیں ادا کرنے چاہیے۔انہوں نے انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان کو بتایا کہ دنیا بھر میں زچگی کے دوران خواتین کی سب سے زیا دہ اموات بلوچستان میں ہوتی ہیں جبکہ فی میل ایجوکیشن کی شرح پوری دنیا میں بلوچستان میں سب سے کم ہے، حکومت کی تمام تر توجہ صرف اور صرف تعمیرات پر ہے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں ادویات، آکسیجن، ویل چیئرز کی کمی کا سامنا ہے ان کی بہترین کی بجائے اربوں روپے لگا کر ہیلتھ سٹی بنایا جارہاہے، 8ارب روپے تک کا پروگرام بنایا گیا ہے مگر ایک روپیہ بھی سروس ڈیلیوری سے کے لئے مختص نہیں۔عمارتوں کی تعمیر میں سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے اسی لئے حکومت ایسے منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کررہی ہے۔ پی ایس ڈی پی میں 4پل شامل کئے گئے تھے وہ بھی بغیر کسی نا م اور جگہ کے تعین کے، اس طرح کے منصوبے کرپشن کے لئے ہی ہو تے ہیں ہم نے تجویز دی تھی کہ صوبے میں 10سال تک سیمنٹ، سریا پر پابندی عائد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے ایک سو 10ارب روپے سڑکوں اور بلڈنگوں، نالیوں جیسے منصوبوں پر خرچ کرکے ضائع کئے جارہے ہیں۔ سول سوسائٹی کو آگے کر مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ بہتری کے لئے کام کرنا ہوگا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں