اسلام آباد (پی این آئی)نواز شریف مفرور ہیں تو مزید 3 سال سزا ہو سکتی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں اور کیا کیا لکھا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز
شریف کو عدالت پیش ہونے کا موقع دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے شہباز شریف کے بیان حلفی پر اقدامات سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران مریم نواز‘ کپٹن صفدر عدالت پیش ہوئے جبکہ نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی عدالت پیش ہوئے۔ اس موقع پر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید، احسن اقبال، ملک ابرار، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، دانیال عزیز، مریم اورنگزیب، زین النساء اعوان، حاجی پرویز اور دیگر بھی موجود تھے۔ دوران سماعت وکلاء اور سائلین کو آمدکے دوران مشکلات کی شکایات پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں بھی اس بات کا احساس ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے، ہمارا سٹاف بھی مشکل سے پہنچا یہ ایڈمنسٹریٹو معاملہ ہے، عدالت میں جو رش ہے اگر خدانخواستہ کسی کو کرونا ہوگیا تو کون ذمہ دار ہے؟۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آ گئے اور کہاکہ مجھے عدالت میں پہنچنے میں بہت مشکلات ہوئیں۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی میرٹ پر ضمانت منظور ہوئی، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد ضمانت منظور ہوئی، العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مشروط ضمانت ملی، نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک گئے واپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی، عدالتی استفسار پر وکیل نے بتایاکہ نواز شریف کا موجودہ سٹیٹس یہ ہے کہ وہ اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، یہ لیگل پوزیشن ہے کہ وہ ضمانت پر نہیں، نواز شریف علاج کے لئے بیرون ملک گئے، ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد ہوئی تو وہ بیرون ملک زیر علاج تھے، نواز شریف کی بیماری پر متعدد میڈیکل بورڈز تشکیل دیئے گئے تھے، نواز شریف کی بیماری کے باعث پرائیویٹ اور سرکاری میڈیکل بورڈز نے بیرون ملک علاج تجویز کیا۔ بیان حلفی دیا گیا کہ صحت یابی کے بعد ڈاکٹرز نے اجازت دی تو پاکستان واپس آ جائیں گے، جس پر عدالت نے کہاکہ کیا ضمانت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو عدالت میں سرنڈر نہیں کرنا چاہیے تھا؟۔ وکیل نے کہاکہ نواز شریف کو جو بیماریاں تھیں اس کا علاج پاکستان میں نہیں۔ نواز شریف کا کیس منفرد ہے، عدالت کو سرنڈر نہ کرنے پر تفصیلی آگاہ کروں گا، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس نے نواز شریف کی بیماری کا جائزہ لیا، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، نواز شریف کو طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت ملی، عدالت نے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تو العزیزیہ کی سزا ختم ہوگئی؟۔ جسٹس عامرفاروق نے کہاکہ نواز شریف کی ضمانت مشروط اور ایک مخصوص وقت کے لیے تھی، خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے صحت یابی پر وطن واپسی کی ضمانت دی،عدالت نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کی سزا مختصر مدت کے لیے معطل کی، کیا لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے آرڈر کو سپر سیڈ کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ کا حکم صرف نام ای سی ایل سے نام نکالنے کا تھا، خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائی گئیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، اس کے باوجود نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی، جس پر عدالت نے استفسارکیاکہ پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کب مسترد کی؟ جس پرخواجہ حارث نے کہاکہ 27 فروری کو پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ کیا پنجاب حکومت کو تمام دستاویزات فراہم کی ہیں؟ جس پر وکیل نے کہاکہ ہم نے اس متعلق رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس رپورٹ جمع کرائی ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے کوئی نمائندہ یا ہائی کمیشن کے کسی فرد نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ نہیں لیا، عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہاکہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ وفاقی حکومت کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ عدالت کو آگاہ کرنا ہے؟۔ کیا پاکستانی ہائی کمیشن نے نوازشریف کے حوالے سے رپورٹ لی، پنجاب حکومت نے نواز شریف کی ضمانت مسترد کردی، اگر وفاقی حکومت کا بھی یہی موقف ہو تو پھر نواز شریف کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، عدالت کی ہدایت پر خواجہ حارث نے ضمانت کیس میں شہبازشریف کی طرف سے دیے گئے بیان حلفی کا پیرا نمبر6 پڑھا جس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ یہ بتا دیں کہ کیا نواز شریف ہسپتال میں داخل ہیں؟ جس پر وکیل نے کہاکہ ایک آرڈر پاس ہوا کہ ڈاکٹرز نے پاکستان سفر کرنے کی اجازت دی تو وہ واپس آنے کے پابند ہوں گے، ہسپتال میں داخل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لندن میں زیر علاج نہیں، کوویڈ کی صورتحال کا بھی سامنا تھا، نواز شریف کا علاج جاری ہے جب علاج مکمل ہوگا واپس آئیں گے، عدالت نے کہا کہ نواز شریف کا علاج ہو رہا ہے یا نہیں ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں، خواجہ حارث نے کہاکہ تسلیم کرتا ہوں کہ نواز شریف کے پاس اس وقت کوئی ضمانت نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ذمہ داری آپ کی ہے کہ آپ بتائیں نواز شریف کیوں مفرور ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں یا نہیں، اس کا جائزہ وفاقی حکومت لے سکتی ہے، وفاقی حکومت نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں تشویش ضمانت سے متعلق ہے، لاہور ہائیکورٹ میں ای سی ایل کا معاملہ ہے، ہم صرف سزا معطلی اور ضمانت کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، اس آرڈر کے اثرات لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر بھی آئیں گے، خواجہ حارث نے کہاکہ نواز شریف کی تازہ ترین میڈیکل رپورٹ بھی موصول ہو گئی ہے جو فارن آفس سے تصدیق کے بعد جمع کرائی جائے گی، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ وہ رپورٹ ابھی ہمارے سامنے نہیں، ہمارے پاس 27جون کی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی گئی، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ پنجاب حکومت نے جو آرڈر پاس کیا، کیا آپ نے اسے چیلنج کیا؟ جس پر وکیل نے کہاکہ وہ آرڈر چیلنج نہیں کیا اور اس کی وجہ بھی درخواست میں لکھی ہے، نواز شریف ملک میں نہیں اس لیے آرڈر چیلنج نہیں کیا گیا، ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرا چکا ہوں، دوسرا بھی کرا دوں گا، عدالت تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اس پر فیصلہ کرے۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ایک سوال ہے کہ اگر نواز شریف کی غیر حاضری میں اپیل خارج ہو گئی تو کیا ہو گا؟اگر عدالت نواز شریف کو مفرور ڈیکلیئر کر دے تو پھر اپیل کا کیا سٹیٹس ہو گا؟ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ نواز شریف کو اپیل کی سماعت کے لیے عدالت پیش ہونا پڑے گا، اگر نواز شریف مفرور ہیں تو الگ 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے، ٹرائل یا اپیل میں پیشی سے فرار ہونا بھی جرم ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ہم نواز شریف کو اس وقت مفرور قرار نہیں دے رہے، لیکن نواز شریف کے بغیر اپیل کیسے سنی جاسکتی ہے عدالت کو مطمئن کریں، اگر ہم نواز شریف کو مفرور قرار دیں تو اپیل کی کیا حیثیت ہوگی؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہاکہ نواز شریف کی حاضری سے استثنا کی دونوں درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، درخواستوں کے ساتھ تفصیلی بیان حلفی لف نہیں،آج ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں،نواز شریف کا پیش نہ ہونا عدالتی کارروائی سے فرار ہے،نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر دونوں اپیلوں کا کیا ہو گا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ جج ارشد ملک کی وڈیو کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے ہے، اس پر عدالت نے کہاکہ ابھی جج ارشد ملک کی ویڈیو پر دلائل نہ دیں پہلے حاضری سے استثنی پر ہی دلائل دیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ اگر نواز شریف مفرور ہوگئے تو عدالت نمائندہ مقرر کرسکتی ہے، نواز شریف مفرور ہونے کے بعد عدالت نیب کو سن کر میرٹ پر فیصلہ کر سکتی ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیا نواز شریف نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کر سکتے ہیں، نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ نواز شریف کی ضمانت منسوخی کا حکم نامہ حتمی ہو چکا، پنجاب حکومت کا نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کا حکم نامہ کہیں چیلنج نہیں ہوا، جس پر عدالت نے نواز شریف کو سرنڈر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف عدالت پیش ہوں، ابھی نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے رہے،نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیتے ہیں، نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست پر مناسب حکم جاری کریں گے، وفاقی حکومت بھی اپنا موقف پیش کرے، خواجہ حارث نے کہاکہ آپ تو عدالت میں پیش نہ ہونے کی وجوہات بھی بتانے کا موقع نہیں دے رہے، جس پرعدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا کیس نواز شریف سے الگ کردیا اور نواز شریف کیس9 ستمبرتک ملتوی کردیا جس پر خواجہ حارث نے کہاکہ 9ستمبر کی تاریخ نہ دیں 3ہفتوں کا وقت دے دیں جس پر عدالت نے10 ستمبر کو نواز شریف کو طلب کرلیا۔ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کی نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت 10 ستمبر کو ہوگی جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلوں پر سماعت 23 ستمبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں