اسلام آباد(پی این آئی) سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے کارڈیک سرجن ستمبر کے دوسرے ہفتے میں ان کی ملٹی پل سرجری کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ اس دوران ڈاکٹروں کی ٹیم دو ہفتے تک ان کی جسمانی حالت کا معائنہ کرتی رہے گی تاکہ ان کی مضبوط صحت بارے معلوم کیا
جاسکے اور آپریشن کے دوران خطرے کے عنصر کو کم کیاجاسکے۔مقامی اخبارکے ذرائع کے مطابق کوئین الزبتھ ہسپتال جہاں ان کی سرجری کی جاسکتی ہے کوویڈ 19 وبا کی وجہ سے اب بھی بند ہے ، صرف ایمرجنسی کیس ہی لیے جاتے ہیں وہ بھی مریض کے کورونا منفی ٹیسٹ سے مشروط ہیں ، اخباری ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف نے حال ہی میں ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس سے رابطہ کیا جنہوں نے ان کا دل کا پہلے آپریشن کیا تھا، انہوں نے ڈاکٹر سے کہا کہ جس قدر جلد ہو سکتا ہے ان کے علاج کا عمل مکمل کیا جائے کیوں کہ وہ جلد سے جلد وطن واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔ نوازشریف کی صحت سے متعلقہ رپورٹس میں حتمی تشخیص بھی شامل ہے جس میں ان کے حتمی چیک اپ سے متعلق پروفیسر آف کارڈیالوجی جنرل ڈاکٹر اظہر محمود کیانی جو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے کی رپورٹ بھی شامل ہے، رپورٹ میں ان کی آرٹری بلاک ایج کو ختم کرنے کیلئے فوری اینجو پلاسٹی کی سفارش کی گئی ہے۔ ممتاز کارڈیک سرجن ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس لندن میں کوویڈ 19 کی وجہ سے سرجری کرنے میں ہچکچا رہے ہیں ،لیکن نواز شریف نے زور دیا ہے کہ وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر کوئی راہ تلاش کریں۔ اس ہسپتال میں کوڈ 19 کی وجہ سے رواں سال کے شروع میں نارمل پروسیجر معطل ہے، ابھی تک کام شروع نہیں کیا گیا او ر مریضوں کو بھی نہیں لیا جا رہا، یہی صورتحال لندن کے دیگر ہسپتالوں کی بھی ہے ،لندن میں نواز شریف کے علاج کیلئے مامور ڈاکٹرزنے ان کے اہل خانہ کو مشورہ دیا ہے کہ سابق وزیر اعظم کو ٹینشن سے دور رکھیں اور ان کی عمومی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کریں تاکہ خطرے کاعنصر ختم ہوجائے۔ نواز شریف جو فون کال شاذ ہی کرتے ہیں، اکثر مریم نواز شریف کی کالز انہیں ہوتی ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن سمیت کچھ رہنماؤں نے ان کی صحت سے متعلق جاننے کیلئے پاکستان سے انہیں کال ملائی جس نے سیاسی حریفوں کو پریشان کردیا تھا۔ اخباری ذرائع نے مزید بتایا کہ کسی بھی ڈاکٹر یا اتھارٹی نے ان کے فون کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی کیونکہ وہ اپنی آزادمرضی کے مالک ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ قیام لندن سے انجوائے نہیں کررہے بلکہ صحت کی مجبوری انہیں برطانوی دارالحکومت میں رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومت میں شامل کچھ اہم افراد نوازشریف سے ان کی صحت اور خیریت دریافت کرنے کے لئے ٹیلی فونک رابطے میں ہیں ، تاہم ذرائع نے ان کی شناخت ظاہر کرنے سےانکار کر دیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں