اسلام آباد (پی این آئی)ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں اور معذوری سے بچنے کیلئے پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سیفٹی سٹینڈرڈز طے،اب پاکستان میں بننے والی گاڑیاں کتنی محفوظ ہوں گی؟ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی
اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے۔ جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا ہلاک ہو جاتا ہے۔ان حادثات کی بڑی وجہ اگرچہ ٹریفک قوانین کی عدم پاسداری ہے تاہم ان حادثات میں ہونے والی ہلاکتوں کے پیچھے پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیوں میں سیفٹی سٹینڈرز کی عدم موجودگی یا معیاری حفاظتی سامان کے نہ لگائے جانے کو بھی گردانا جاتا ہے۔صرف عام آدمی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کئی ایک سیاسی شخصیات خود یا پھر ان کے اہل خانہ گاڑیوں میں مناسب یا معیاری حفاظتی ساز و سامان نصب نہ ہونے کی وجہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گزرے چند برسوں میں رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری عظیم دولتانہ، سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ کا بیٹا جبکہ انجینئر بلیغ الرحمان کی اہلیہ اور بچے بھی ٹریفک حادثات کے دوران ہلاک ہوئے تو ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کے معیار پر سوالات اٹھائے گئے۔پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کے سٹینڈرڈز طے کر لیے گئے ہیں۔ایک ماہ کے اندر ابتدائی سٹینڈرڈز کابینہ کی منظوری کے لیے پیش کر دیں گے۔فواد چوہدری نے کہا کہ ‘یہ کام میرے اندازے سے بہت مشکل تھا۔ بہت رکاوٹیں ڈالی گئیں لیکن میں جو ٹھان لیتا ہوں کر کے رہتا ہوں۔’اس حوالے سے فواد چوہدری نے کہا کہ ‘ان سٹینڈرڈز میں کاریں بنانے والی کمپنیوں پر واضح کیا ہے کہ ‘سات سیفٹی سٹینڈرز ہیں جن کو ہر صورت میں ایسا بنانا چاہیے کہ حادثے کی صورت میں انسانی جانیں محفوظ رہیں۔’انھوں نے کہا کہ ‘جب بھی حادثے کی صورت حال بنتی ہے تو ان گاڑیوں کے بریک کام نہیں کرتے۔ نئے سیفٹی سٹینڈرز میں شامل ہے کہ بریک کا معیار بہتر ہو اور بوقت ضرورت بریک لگنی چاہیے۔ حادثے کی صورت میں ونڈ سکرین گاڑی میں موجود افراد پر نہیں گرنی چاہیے اور ایئر بیگ کھلنے چاہئیں۔’ عموما رات کو پیش آنے والے حادثات کی بڑی وجہ گاڑیوں میں کم کوالٹی کی ہیڈ لائٹس ہوتی ہیں۔ فواد چودھری کے مطابق نئے سیفٹی سٹینڈرڈز میں شامل ہے کہ ایسی لائٹس لگائی جائیں کہ وہ رات کو کام کریں اور بارش کی صورت میں سکرین سے پانی ہٹانے کے لیے معیاری وائپر لگائیں جن کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔’اس سوال پر کہ نئے سیفٹی سٹینڈرز کو یقینی بنانے کے نام پر کاریں بنانے والی کمپنیاں کاروں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیں گی تو فواد چوہدری نے کہا کہ ‘یہ وہ تمام معیارات ہیں جو ان کمپنیوں نے پہلے ہی پورے کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور ان کے نام پر وہ قیمت وصول کر رہے ہیں۔ موجودہ قیمتوں کے اندر ہی انھیں ان سب معیارات کو یقینی بنانا ہوگا۔‘دوسری جانب پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس اقدام کو سراہتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس وقت پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں کے سیفٹی سٹینڈرڈز صفر جبکہ قیمتیں کئی ایک انٹرنیشنل معیار کی گاڑیوں سے بھی زیادہ ہیں۔ پاکستان موٹرز ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ ‘پاکستان میں اسیمبل ہونے والی گاڑیاں درآمد نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی قیمتیں عالمی معیار کی ہیں جبکہ ان میں کوئی سیفٹی سٹینڈرڈ نہیں۔ حکومت نے اب کوشش تو کی ہے لیکن لوکل اسیمبلر اس کو ماننے کو تیار نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو ہر حال میں سیفٹی سٹینڈرز پر عمل در آمد کرانا چاہیے۔ اب حکومت کو جبراً ان معیارات کو یقینی بنانا ہوگا۔ گزشتہ 35 سال سے عمل در آمد نہیں ہوا تو اب کروانا چاہیے۔‘انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں 650 سی سی کی گاڑی متعارف کرائی گئی ہے جس کی قیمت سولہ لاکھ روپے ہے اور اس کا سیفٹی سٹینڈرز زیرو ہے۔’انڈیا میں وہی گاڑی ماروتی بھارت ون کے نام سے ہے اس میں تمام سٹیڈرڈرز موجود ہیں۔ یہ سیمی ہائبرڈ گاڑی ہوتی ہے اس میں ایک سسٹم لگا ہوتا ہے۔ پاکستانی اسیمبلر نے وہ سسٹم چوری کر لیا ہے۔ انڈیا والی گاڑی میں وہ تمام سیفٹی سٹیڈرز ہیں جو جاپانی گاڑیوں میں ہے اور اس کی قیمت انڈین روپے میں پونے چار لاکھ یعنی پاکستان میں سات سے ساڑھے سات لاکھ روپے، جبکہ سولہ لاکھ روپے میں پاکستان ملنے والی گاڑی کا سیفٹی معایر زیرو ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ‘اب دنیا کی گاڑیوں میں دو کے بجائے آٹھ ایئر بیگ لگتے ہیں تاکہ انسانی جان بچ جائے۔ یہاں اگر ایئر بیگ کی بات کی جائے تو فرمائشی پروگرام چلتا ہے کہ ایک چاہیے یا دو؟ اگر دو کہیں تو اس کے الگ سے 5 لاکھ 60 ہزار روپے دینے پڑتے ہیں۔‘خیال رہے کہ وزارت صنعت و پیداوار کے سیکریٹری افضال لطیف نے کچھ عرصہ قبل ایک پارلیمانی کمٹی کو بتایا تھا کہ اِس وقت پاکستان میں مقامی آٹو مینوفیکچررز کے لیے سیفٹی اور معیارات کی جانچ کرنے کا کوئی طریقہ سرے سے موجود ہی نہیں۔وزارت صنعت و پیداوار مقامی طور پر بننے والی گاڑیوں کی حالت یہاں تک کہ قیمت تک کو چیک نہیں کرتی۔ یہ جانچ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) کے دائرہ کار میں آتی ہے تاہم گاڑیاں پی ایس کیو سی اے کی لازمی اشیاء کی فہرست میں شامل نہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس طرح کی جانچ کے لیے ذمہ دار ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے۔ آل پاکستان آٹو موبائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن سمیت متعدد آٹوموبائل کمپنیوں سے رابطہ کیا تاہم ان کا موقف تھا کہ اس معاملے پر موقف ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ہی دیں گے جو ایک ہفتے تک دستیاب نہیں ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں