کراچی(پی این آئی)شہر قائد بارش میں ڈوب گیا، نظام زندگی درہم برہم، 21افراد ہلاک ،وزیر اعلیٰ سندھ کا صوبے میں چھٹی کا اعلان، کراچی میں جمعرات کی صبح سے موسلادھار بارش کا سلسلہ دن بھر جاری رہا، محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میں 200 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی جس کے بعد شہر کی اہم
سڑکیں اور شاہراہیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔جمعرات کو بارش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حادثات کے نتیجے میں خاتون اور بچوں سمیت 21 افراد ہلاک ہو گئے۔وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے آج صوبے میں چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ ضروری خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے سوا تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے بند رہیں گے۔صوبائی حکومت نے دو روز قبل فلڈ ایمرجنسی نافذ کردی تھی، تاہم یہ صرف بیان کی حد تک محدود رہی اور کوئی عملی اقدامات نہیں ہوئے، نتیجتاً کراچی شہر میں جمعرات کو بارش سے صورت حال مزید خراب ہو گئی۔منگل کو بھی جب شہر کے کئی علاقے بارش میں ڈوبے تھے تو دن کے اختتام پر وزیر اعلیٰ سندھ نے شہر کے کچھ مقامات کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے چیف سیکرٹری سندھ کو صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات دیے تھے۔تاہم ان احکامات کی روشنی میں شہر میں کہیں کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ وزیرِ اعلیٰ نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو بھی ریلیف کے کام کرنے کا حکم دیا تھا مگر دو دن گزر جانے کے باوجود کسی حکومتی ادارے کی جانب سے کوئی بڑا امدادی کام ہوتا دکھائی نہیں دیا۔جمعرات کو ریکارڈ بارش میں شہر سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ترجمان چیف سیکرٹری سندھ سے اس حوالے سے استفسار کیا گیا کہ جو ایمرجنسی نافذ ہوئی تھی اس کا کیا ہوا؟ چیف سیکرٹری سندھ کے ترجمان فرحت امتیاز کا کہنا تھا کہ منگل کو کراچی میں رین ایمرجنسی نہیں بلکہ اس بھی بڑھ کر فلڈ ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، جس کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کیا گیا تھا جس کے بعد تمام اداروں کے سٹاف کی چھٹیاں منسوخ کر کے انہوں ڈیوٹی پر بلا لیا گیا تھا۔فلڈ ایمرجنسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نوٹی فیکیشن کے مطابق تمام ڈپٹی کمشنرز کو احکامات جاری کیے گئے تھے کہ وہ اپنے عملے کے ساتھ فیلڈ میں موجود رہیں اور ریلیف کا کام سر انجام دیں۔تاہم جب ان سے کراچی کے ریلیف کے کاموں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے دادو کے علاقے کا بتایا کہ وہاں لوگوں کو برساتی ریلے سے بچانے کے لیے آپریشن ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کیا گیا۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ شدید برسات کے سبب کراچی میں ڈیزاسٹر کی صورت حال ہوگئی ہے۔ انہوں نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ ملیر کے علاقے میں سکول کی عمارات خالی کروا کر وہاں کے قریبی علاقوں میں پھنسے لوگوں کو منتقل کیا جائے۔’اللہ پاک رحم فرمائے، کچے مکانات میں رہنے والے لوگوں کی پریشانی ہے۔ ڈپٹی کمشنرز اپنے عملے کے ذریعے شہریوں کا خیال رکھیں۔’ وزیراعلی سندھ نے لوگوں کی مدد کے لیے ڈی ایم سیز، ڈی سیز، پی ڈی ایم اے کو الرٹ رہنے کی ہدایت بھی کی۔اس کے برعکس کراچی میں ریلیف آپریشن فلاحی اداروں اور فوج کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ آرمی کے جوان تین دن سے سرجانی کے علاقے میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے اور انہیں خوراک اور ضروری اشیا بھی فراہم کر رہے ہیں۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کے دستوں نے کراچی حیدرآباد موٹروے کو پانی کے ریلے سے بچانے کے لیے اس کے گرد کئی کلومیٹر طویل بند باندھا۔ دوسری جانب ملیر ندی میں طغیانی اور بند ٹوٹنے کی صورت میں پاک بحریہ کے دستوں نے ریلیف آپریشن میں حصہ لیا اور ندی کے کنارے بند پختہ کرنے کے علاوہ ندی میں پھنسے لوگوں کو ڈوبنے سے بھی بچایا۔پاک بحریہ کے ترجمان کے مطابق سول انتظامیہ کی مدد کے لیے پاک بحریہ نے متاثرہ علاقوں ڈائمنڈ سٹی ملیر ، شاہ فیصل ٹاؤن، کورنگی کراسنگ، سمو گوٹھ اور بحریہ ٹاؤن کراچی میں ایمرجنسی رسپانس اور ریسکیو ٹیمیں تعینات کیں۔بحریہ کی ٹیموں نے بارش کے پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اور سیلاب میں بہہ جانے والی نعشیں تلاش کر کے ورثا کے حوالے کیں۔سرچ اور ریسکیو آپریشن کے دوران پاک بحریہ نے شاہ فیصل ٹاؤن اور کورنگی کراسنگ کے علاقوں سے دو افراد کی نعشیں برآمد کیں جبکہ ملیر اور کورنگی کراسنگ کے سیلاب زدہ علاقوں سے 55 افراد کو نکالا گیا۔ علاوہ ازیں پاک بحریہ کی ریسکیو ٹیموں نے سمو گوٹھ میں پھنسے ہوئے 20 خاندانوں کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کیا۔اس کے علاوہ ایدھی، چھیپا، الخدمت اور دیگر فلاحی ادارے بارش سے تباہ حال علاقوں میں لوگوں کی مدد کا کام کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں کھڑے پانی کو نکالنے کے لیے تا حال کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ شہر کے پوش علاقوں میں بھی دو دن سے پانی کھڑا ہے، شارع فیصل بھی ڈوب چکی ہے، شاید یہی وجہ ہے اب پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر نہ تو شہر کا دورہ کر رہے ہیں نہ ہی اس حوالے سے کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔کراچی کے شہریوں کا بارش میں بُرا حال ہے، سڑکوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے لاتعداد گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں خراب ہو چکیں۔ شہری اپنی گاڑیاں روڈ پر ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ کاروباری مراکز کے علاقوں میں بے تحاشا بارش کے نتیجے میں ملازمت پر آئے لوگوں کی گاڑیاں پارکنگ میں کھڑی کھڑی ڈوب گئیں۔ شہر میں سیلابی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ تمام انڈرپاسز پانی سے بھر گئے۔پولیس نے شہر کے ساتوں انڈرپاسز کو آمدورفت کے لیے بند کردیا ہے۔ کے پی ٹی، سب میرین چوک، شارع فیصل اور لیاقت آباد میں واقع انڈر پاس میں مکمل طور پر پانی بھر گیا۔دوسری جانب، سندھ میں برسرِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے لوگوں کو بتایا کہ حالیہ بارشیں سندھ کی 90 سالہ تاریخ میں بدترین بارشیں ہیں۔ بلاول نے سندھ میں ریونیو اور ریلیف کے وزیر مخدوم محبوب الزماں سے بھی ملاقات کی اور ان سے صوبے میں جاری ریلیف کے کاموں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان لوگوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں جو غیرمعمولی اور ریکارڈ قدرتی آفت میں شہریوں کی مدد کررہے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے وزیرِ اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے وہ کراچی میں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے این ڈی ایم اے اور پاک فوج کو فوری ذمہ داری تفویض کریں۔ان کا کہنا تھا کہ شہر کو آفت زدہ قرار دیں تاکہ شہریوں کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح سے جاری طوفانی بارش کو شہر کا بوسیدہ انفراسٹرکچر بالکل بھی نہیں سنبھال پائے گا۔محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں صبح سے اب تک پی اے ايف فيصل بيس پر سب سے زيادہ 130 ملی ميٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔اس کے علاوہ ناظم آباد ميں 105.6 ملی ميٹر، نارتھ ناظم آباد 102.4، پی اے ایف مسرور بيس 98.5 ، کيماڑی 82.5، نارتھ کراچی 80.2، جناح ٹرمينل 80.2، یورنیورسٹی روڈ 74.3، سرجانی ٹاؤن 73، سعدی ٹاؤن 72، يونيورسٹی روڈ 67.4 اور گلشن حديد ميں 30 ملی ميٹر بارش ريکارڈ کی جا چکی ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق ضلع وسطی میں صبح 8 سے 11 بجے کے درمیان 3.2 ملی میٹر بارش ہوئی جس کے بعد صرف 2 گھنٹے میں 102 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔صبح 11 سے دوپہر 2 بجے تک ضلع وسطی میں 105.6 ملی میٹر بارش ہوچکی ہے۔ حالیہ بارشوں کے باعث کراچی سے 50 کلومیٹر دور واقع حب ڈیم پانی سے بھر مکمل بھر چکا ہے، ایم ڈی واٹر بورڈ خالد محمود شیخ کا کہنا ہے کہ حب ڈیم میں پانی کی سطح خطرے کے نشان تک پہنچتے ہی سپل ویز کھول دیے جائیں گے۔’ 600 فٹ چوڑے سپیل وے کے ذریعے ڈیم کا پانی حب ندی سے ہوتا ہوا سمندر میں جاتا ہے اور اس سے کراچی اور ڈیم کے اطراف آبادیوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سپل وے کی صورت حال سے سیکریٹری بلدیات افتخار شالوانی کو آگاہ کردیا گیا ہے، وہ اور ایم ڈی واٹر بورڈ خالد شیخ حب ڈیم کی صورت حال کو مانیٹر کررہے ہیں۔’حب ندی کے قریب رہنے والوں کو پولیس کے ذریعے صورت حال سے آگاہ کیا جا رہا ہے، قرب و جوار کی آبادیوں کی مساجد سے اعلانات کرائے جارہے ہیں۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ شہری حب ندی کے قریب جانے سے گریز کریں۔علاوہ ازیں، شہر کے بیشتر علاقوں میں بارش شروع ہوتے ہی بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی جو تاحال بحال نہیں ہو سکی، گلشنِ اقبال، گلستانِ جوہر، ناظم آباد، نارتھ کراچی، صدر، پی ای سی ایچ ایس، ڈیفنس، ملیر، شاہ فیصل اور شہر کے بیشتر علاقوں میں بجلی کی فراہمی کئی گھنٹوں سے معطل ہے۔ترجمان کے الیکٹرک کے مطابق پانی جمع ہونے کے سبب بعض مقامات پر مسلسل بجلی بحال رکھنا خطرناک ہو سکتا ہے، لہٰذا ایسے علاقوں کی بجلی منقطع کی گئی ہے۔’بجلی کی تنصیبات سمیت شہر کے کئی علاقے پانی میں گھرے ہوئے ہیں، بلدیہ، بن قاسم، کورنگی اور اورنگی کے کچھ مقامات پر احتیاطاً عارضی طور پر بجلی بند کی گئی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں