لاہور (پی این آئی) سعودی عرب کے پاکستان میں سابق سفیر ڈاکٹر علی اودھ نے ڈاکٹر علی اودھ نے اپنے حالیہ کالم میں پاک سعودیہ کے حالیہ تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے لکھا کہ گذشتہ کچھ دنوں سے پاکستانی میڈیا پر کچھ پریشان کن خبریں سامنے آئیں،بین الاقوامی میڈیا نے ان خبروں کو اٹھا کر پاکستان اور سعودی عرب کے
تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ان تمام خبروں کا مقصد کشمیر سے متعلق او آئی سی کی پوزیشن پر سوال اٹھا کر امت مسلمہ میں پھوٹ پیدا کرنا ہے۔انہوں نے شاہ محمود قریشی کے حالیہ متنازع بیان کو بھی تشویشناک قرار دے دیا۔جس میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر او آئی سے مسئلہ کشمیر پر وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلاتی تو پھر وزیراعظم عمران خان اسلامی ممالک کا اجلاس بلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔سابق سفیر مزید لکھتے ہیں کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملے پر سعودی تناطر تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی۔لہذا ریکارڈ کو درست کرنے کے لیے وضاحت بہت ضروری ہے۔سعودی عرب اور پاکستان کے مابین مشترکہ مذہبی،ثقافتی اور معاشی اقدار پر مبنی دوستی کا ایک لازوال رشتہ قائم ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات عوام کی باہمی محبت سے جڑے ہیں۔چاہتے حکومتیں تبدیلی ہوتی رہی ہوں لیکن دونوں ممالک کی عوام میں محبت میں کوئی فرق نہیں آیا۔یہی وجہ ہے ہر گزرتے سال کے ساتھ سیاسی ،سلامتی اور معاشی میدانوں میں پاک سعودی تعاون بڑھ رہا ہے۔گذشتہ سال فروری میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات اس وقت مزید مضبوط ہوئے جب سعودی ولی عہد نے پاکستان کا دورہ کیا۔اس کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور معاشی مدد کی اور 6.2 بلین ڈالر کا قرض دیا، سعودی عرب نے پاکستان کو معاشی پیکج دے کر سب سے پہلے مدد کی اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کی مدد کی۔ڈاکٹر علی اودھ مزید لکھتے ہیں کہ مجھے کشمیر میں او آئی سی کے کردار پر شاہ محمود قریشی کے تبصرے کو دیکھ کر دکھ ہوا ، جو حقیقت سے دور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے سفیر یوسف ایم الڈوبائے کی سربراہی میں کشمیر سے متعلق او آئی سی کے رابطہ گروپ نے رواں سال مارچ میں لائن آف کنٹرول سمیت ، آزاد جموں و کشمیر کا دورہ کیا تھا۔عالمی وبا نے بڑے سفارتی اجتماعات پر پابندی عائد کی تھی،شاہ محمود نے وزرائے خارجہ کی میٹنگ پر اصرار کر کے او آئی سی کی ساکھ کو داغدار کیا۔ شاہ محمود قریشی ابتدا میں ایک آدھ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد خاطر خواہ کارگردگی دکھانے میں ناکام رہے۔سعودی عرب اور او آئی سی کے خلاف بھراس نکال کر اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کی۔اور اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالنے کی کوشش کی۔شاہ محمود قریشی کے بیانات سے دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے ڈی جی آئی ایس پر آر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میجر جنرل افتخار بابر نے کہا کہ ہمیں پاک سعودیہ تعلقات پر فخر ہے۔لہذا دونوں ممالک کے تعلقات پر سوال اٹھانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد شاہ محمود کہاں کھڑے ہیں؟کیا وزیراعظم عمران خان شاہ محمود قریشی کو مستقبل محتاط رہنے کی ہدایات کریں گے؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں