اسلام آباد (پی این آئی )کشمیر جیسے سلگتےایشو پر سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کی جانب سے کھل کر بات کرنے کا اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی مسئلہ سے آگاہی کے باوجود مصلتحاً اور اپنے معاشی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ نجی ٹی وی پروگرام میں سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بھارت طاقت اور
قوت کے استعمال کے ذریعے کشمیر یوں کی آواز دبانے کیلئے سرگرم عمل ہے اور کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ لہذا اس کا امر کا جائز لینا ضروری ہے کہ آخر مسلمان حکمران کیونکر کشمیر پر کھل کر آواز آٹھانے کو تیار نہیں ۔ کیا عالمی محاذ پر اقتصادی و معاشی مفادات ہی اہم ترین ہیں ؟اور خصوصاً عالم اسلام نے اس مسئلہ کو اس سنجیدگی سے کیونکر نہیں لیا جس کا یہ متقاضی تھا؟ ۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان کے اندر قیادت کو اس تلخ حقیقت کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا کہ پاکستان کے بنیادی تنازع کو مسلم دنیا سمجھنے کو کیوں تیارنہیں ؟ بھارت کے یکطرف ظالمانہ اقدامات اور کشمیرکی جغرافیائی حثیت تبدیل کرنے کے عمل کو پاکستان کے عرب دنیا میں دوستوں نے ٹھنڈے پیٹوں پرداشت کر لیا ۔ یہ ایسا کڑوا سچ ہے جسے اب خارجہ پالیسی کے دماغوں کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اس کیلئے بہر حال اب متبادل آپشن پر جانا پڑے گا ۔ درحقیقت سعودی عرب کے واشنگٹن سے تعلقات اور پھر سعودی عرب اور عرب آمارات کے بھارت سے تجارتی تعلقات نے اوآئی سی کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر ڈالا ہے ۔ اس فیصلہ کن لمحے میں جب پاکستان کو کشمیر پر اسلامی ممالک سے ایک آواز اور ردعمل کی ضرورت ہے ، سعودی قیادت میں مسلم ممالک کی بڑی سفارتی تنظیم سوئی ہوئی ہے ۔ یہ حقیقت اب کھل چکی ہے کہ عرب دوست انسانی حقوق اور آزادی کی اقدار پر اپنے تجارتی تعلقات قربان کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لگ یہی رہا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے منصوبہ سازوں نے اہتمام حجت شاہ محمود قریشی کو کھل کر بولنے کا اشارہ دیا ۔ دن
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں