برلن(پی این آئی) نئی طبی تحقیق میں کہاگیاہے کہ کچھ افراد جو نئے کورونا وائرس کے شکار نہیں ہوتے، مگر ان کا مدافعتی نظام اس جراثیم کے حوالے سے حیران کن طور پر ایسا دفاع فراہم کرتا ہے، ان میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ ہونے کا امکان نہیں ہوتا۔جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں جرمنی کے 68 صحت مند بالغ افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو کورونا وائرس کے شکار نہیں ہوئے تھے اور دریافت کیا گیا کہ 35
فیصد کے خون میں ایسے ٹی سیلز موجود ہیں جو وائرس کا سامنا کرنے پر فعال ہوجاتے ہیں۔ٹی سیلز مدافعتی نظام کا حصہ ہوتے ہیں اور جسم کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ٹی سیلز کے متحرک ہونے سے عندیہ لیا جاتا ہے کہ مدافعتی نظام کو اس طرح کی بیماری سے لڑنے کا پہلے بھی تجربہ ہوچکا ہے اور اس تجربے کو نئی بیماری سے لڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر محققین کو اس سوال نے حیران کیا کہ آخر تحقیق میں شامل افراد میں ایسے متحرک ٹی سیلز کیسے بنے جب ان کو کووڈ 19 کا تجربہ ہی نہیں ہوا،ان کے خیال میں ممکنہ طور پر اس کی وجہ ماضی میں عام کورونا وائرسز کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس سے ملتی جلتی بیماری (یعنی کووڈ 19) کے خلاف ٹی سیلز نے ان تجربات کو استعمال کیا،اس عمل کو کراس ری ایکٹیویٹی کہا جاتا ہے۔، تحقیق میں کووڈ 19 کے 18 مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ بھی کیا گیا تھا جن کی عمریں 21 سے 81 سال کے درمیان تھی اور باقی دیگر صحت مند افراد کی عمریں 20 سے 64 سال کے درمیان تھیں،تحقیق میں ان متحرک ٹی سیلز کو کووڈ 19 کے 83 فیصد مریضوں میں بھی دریافت کیا گیا مگر محققین نے انہیں اس بیماری سے محفوظ رہنے والے کچھ صحت مند لوگوں میں بھی دیکھا تاہم محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے خلاف ان خلیات کے اثرات کے بارے میں ابھی بھی کچھ زیادہ معلوم نہیں۔دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ وہ اس تحقیق کے نتائج پر حیران نہیں کہ ایسے افراد میں بھی متحرک ٹی سیلز موجود ہیں جو اس سے قبل کورونا وائرس کے شکار نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ سارس کوو 2 ساتواں انسانی کورونا وائرس ہے اور 4 کورونا وائرس ایسے ہیں جو انسانی برادریوں میں عام ہیں جو عام نزلہ زکام کے 25 فیصد کیسز کا باعث بنتے ہیں، دنیا میں لگ بھگ ہر فرد کو کسی ایک کورونا وائرس کا سامنا ہوچکا ہے اور چونکہ یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، تو کسی حد تک متحرک مدافعت پیدا ہوچکی ہوتی ہے تاہم یہ پہلی تحقیق نہیں جس میں اس طرح کے نتائج سامنے آئے ہیں، اس سے قبل اسی جریدے جرنل نیچر میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین کے ایک مقالے میں بتایا گیا تھا کہ 20 سے 50 فیصد صحت مند افراد میں اس طرح کے ٹی سیلز موجود ہوتے ہیں تاہم اس کے اثرات اور ذرائع کے بارے میں ابھی کچھ بھی معلوم نہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں